السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے بعض طواف کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے اپنی خواتین کو آگے ڈھکیلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا افضل ہے یا مردوں کی بھیڑ سے عورتوں کا دور رہنا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نے اگر یہ عجیب بات دیکھی ہے، تو میں نے اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ دیکھی ہے کہ بعض لوگ فرض نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش میں دوڑ بھاگ میں لگ جاتے ہیں اس طرح فرض نماز کو جو ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے، ایک ایسے کام کی وجہ سے باطل کر لیتے ہیں، جو واجب نہیں ہے اور طواف کے بغیر اسے مشروع قرار نہیں دیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کی جہالت مرکب ہے، جس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ حجر اسود کا بوسہ واستلام صرف طواف میں سنت ہے، طواف کے بغیر سنت نہیں ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہے کہ طواف کے بغیر حجر اسود کا بوسہ واستلام سنت ہے، تو امید ہے کہ وہ ہمیں بھی اس کے بارے میں مطلع فرما دے گا، اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر سے نوازے۔
حجر اسود کو بوسہ دینا طواف میں مسنون ہے اور مسنون بھی اس صورت میں کہ اس سے طواف کرنے والے یا کسی دوسرے کو کوئی ایذا نہ پہنچے۔ اگر اس سے کسی دوسرے کو ایذا پہنچتی ہو تو پھر بوسے کے بجائے دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مشروع فرمایا ہے اور وہ یہ کہ انسان حجر اسود کو ہاتھ سے چھو لے اور ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر اس میں بھی ایذا ومشقت ہو تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کیا جائے گا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور وہ یہ کہ ہم حجر اسود کی طرف ایک ہاتھ سے، دونوں ہاتھوں سے نہیں، یعنی دائیں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کریں اور اسے بوسہ نہ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اسی طرح ثابت ہے۔ اگر اس طرح کی صورت حال در پیش ہو جیسی سائل نے ذکر کی ہے کہ انسان اپنی خواتین کو آگے ڈھکیلتا ہے تاکہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے سکیں تو ان خواتین میں کوئی حاملہ بھی ہو سکتی ہییا کوئی بڑھیا بھی ہو سکتی ہے، کوئی ایسی دوشیزہ بھی ہو سکتی ہے جو دھکم پیل کو برداشت نہ کر سکتی ہو یا اس نے ہاتھ میں بچہ اٹھا رکھا ہو تو یہ تمام صورتیں بے حد معیوب ہیں کیونکہ اس طرح خواتین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور مردوں کے ساتھ مزاحمت کاخطرہ ہے، اور یہ تمام صورتیں حرام یا کم از کم مکروہ ہیں، لہٰذا کسی بھی آدمی کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کام میں کافی گنجائش ہے، آپ بھی اس گنجائش سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ پر سختی نہ کریں کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی آپ پر سختی کرے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب