سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تشہد میں رفع سبابہ کا مسئلہ

  • 13383
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 955

سوال

تشہد میں رفع سبابہ کا مسئلہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد کی حالت  میں شروع ہی سے  انگلی کو حرکت دینی  شروع کردینی  چاہیے  یا درود کے بعد جب دعائیں  شروع کریں تو حرکت دیں؟ دو سجدوں  کے درمیان بھی انگلی  کو حرکت دینی  چاہیے  یا نہیں ؟  درود کے بعد انگلی  کو  حرکت  دینا  کون سی حدیث  سے ثابت  ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تشہد کی حالت  میں شروع سے ہی  انگلی  کھڑی  کردی  جائے ۔ جیسا کہ  احادیث  کے عموم  سے ثابت  ہے:

" كان  رسول الله صلي الله عليه وسلم  اذا  قعد في الصلوة ____ واشار باصبعه "

(صحیح  مسلم  کتاب  الصلوۃ  باب صفۃ  الجلوس فی الصلوۃ  وکیفیتہ  موضع الیدین  علی  اللخذین  حدیث:579)  جب دعا کریں  یعنی   درود کے بعد تو شہادت کی انگلی  کو حرکت دیں ۔

(سنن  النسائی  ۔الافتتاح  باب موضع الیمین  من الشمال  فی الصلوۃ  ح 890،وسندہ  صحیح  فرایتہ یحر  کھایدعوبھا)

 فائدہ : عاشق  الہی  میرٹھی  دیوبندی  نے لکھا ہے :

" تشہد میں جو رفع سبابہ  کیا جاتا ہے کہ  اس میں تردد تھا کہ  اس اشارہ  کا بقاء  کس وقت تک کسی  حدیث میں منقول ہے یا نہیں ۔حضرت قدس سرہ  (یعنی   رشید  احمد گنگوہی  دیوبندی )  کے  حضور  میں پیش کیاگیا فوراً ارشاد  فرمایا

" ترمذی  کی کتاب  الدعوات میں حدیث  ہے کہ  آپ نے  تشہد  کے بعد فلاں  دعا پڑھی  اور اس میں سبابہ  سے  اشارہ  فرما رہےتھے " اور ظاہر  ہے کہ دعا قریب  سلام  کے پڑھی  جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ  اخیر  تک  اس کا باقی رکھنا  حدیث میں منقول  ہے اور  یہ بھی فرمایا کہ لوگ اس مسئلہ  کو باب  التشہد میں ڈھونڈتے ہیں اور  وہاں  ملتا نہیں،اس سے  سمجھتے ہیں  کہ حدیث  میں  نہیں  ہے  امام  ربانی  کا سرعت  انتقال  ذہنی  اور ملکہ  استنباط  دفقاہت ان دونوں  واقعہ  سے اظہر  من الشمس ہے" ( تذکرۃ  الرشید ج1ص 113، تفقہ اور افتاء )

 راقم الحروف کے  خیال میں گنگوہی  صاحب کا اشارہ  اس حدیث کی طرف ہے  جس  میں لکھا ہوا ہے:" ان رجلا كان  يدعوا باصبعيه  فقال  رسول الله صلي الله عليه وسلم  :احد احد"

( سنن  ترمذي  كتاب الدعوات باب 104 قبل احادیث شتی  من  ابواب  الدعوات حدیث :3557)

لیکن  یہ سند محمد  بن عجلان  کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص385

محدث فتویٰ

تبصرے