سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مدرک رکوع کی رکعت کا حکم

  • 13372
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2089

سوال

مدرک رکوع کی رکعت کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مدرک رکوع کی رکعت ہوجاتی ہے؟ مدلل جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے  میں علماء  کے دو موقف  ہیں :

اول: یہ رکعت ہوجاتی ہے ۔

دوم : یہ  رکعت نہیں ہوتی ۔

 اول الذکر  علماء  کے دلائل  کا مختصر وجامع  جائزہ  درج  ذیل ہے :

1)     ابوداؤد( ابن خزیمہ (1622 واعلہ  ولم یصححہ )حاکم (1۔216،273،276) دارقطنی  (1/347ح1299) اور بیہقی  (2/88) نے )

 يحيي  بنب ابي سليمان  عن زيد  بن ابي عتاب  وسعيد  المقبري  عن ابي  هريرة " كی سند  سے روایت  بیان کی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«اذا جئتم  ونحن  سجود فاسجدوا ولا تعتدوا شيئا ومن  ادرك  الركعة  فقد ادرك  الصلوة »

 جب تم آؤ اور ہم سجدے  میں  ہوں   تو سجدہ  کرو  اور اسے  کچھ بھی  نہ شمار کرو اور جس نے  رکعت  پالی  تو اس نے  نماز پالی ۔

اس روایت  کے راوی  یحیی  بن ابی سلیمان  کے بارے  میں امام بخاری  نے فرمایا:

"منكر الحديث" (جذء القراءة :٢٣٩)

ابن خزیمہ  نے فرمایا :" دل اس سند  پر مطمئن  نہیں ہے  کیونکہ یحیی س بن ابی سلیمان  کو جرح  یا تعدیل  کی رو سے  نہیں جانتا " (صحیح ابن خزیمہ  3/ 57،58 ونصر الباری  ص262)

یحیی  مذکور کو جمہور محدثین  نے ضعیف  قرار دیا ہے  لہذا حاکم  کا اس کی روایت  کو صحیح کہنا  مردود ہے ۔

 تنبیہ: یہ روایت  مدرک رکوع کی دلیل نہیں ہے بلکہ  اس سے یہی ثابت  ہوتا ہے کہ  جو رکعت پالے  اس نے نماز پالی ۔

2) بیہقی  نے " عن عبدالعزيز بن رفيع عن رجل  عن النبي صلي الله عليه وسلم " کی سند   سے روایت  کیا ہے کہ 

«اذا جئتم  والامام راكع  فاركعوا وان  كان ساجدا فاسجدوا ولا تعتدوا بالسجود اذا لم   يكن  معه  الركوع»

 جب تم آؤ اور امام رکوع میں ہوتو تم رکوع  کرو اور جب  سجدے  میں ہوتو سجدہ کرواور سجدے  شمار نہ کرو جب تک ان کے ساتھ رکوع نہ ہو۔( 2/89)

اس روایت  میں "رجل "(آدمی) مجہول  ہے اور اس  بات کا کوئی ثبوت  نہیں ہے کہ  یہ صحابی  ہے ۔

تنبیہ : بیہقی  کی  ایک روایت  (2/296) میں" سفیان  (الثوری )  عن عبدالعزيز بن رفيع من شيخ  من الانصار " کی سند سے ان الفاظ جیسا  مفہوم  مروی ہے ۔اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:

اول: سفیان ثوری  مدلس  اور روایت  معنعن ہے ۔

دوم: شیخ  من الانصار مجہول  ہے اور یہ کہنا کہ "والصحيح  انه صحابي ’ غلط ہے ۔

 سوم :  دارقطنی ( 1/346ح1298)بخاری  (جز ء القراءۃ 208) ابن خزیمہ  (1595) بیہقی  (2/89) عقیلی  ( 4/398) اور ابن عدی  (7/2684) وغیرہم  نے 

" يحيٰ بن  حميد عن قرة عن  ابنب شهاب  عن ابي سلمة عن ابي  هريرة  " کی سندسے  روایت  کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

« من ادرك  ركعة  من الصلوة فقد ادركها  قبل ايقيما الامام صلبه »

 جس نے امام کے پیٹھ  اٹھانے  سے پہلے  نماز کی رکعت  پالی تو اس نے نماز پالی۔

اس روایت کی  سند قرہ بن عبدالرحمن بن حیویل کی وجہ سے  ضعیف  ہے ۔ قرہ جمہور محدثین  کے  نزدیک  ضعیف  ہے،اس روایت  کے بارے میں  شیخ  امین اللہ پشاوری  فرماتے ہیں : ' وسندہ  ضعیف " اور  اس کی  سند  ضعیف ہے ۔( فتاوی  الدین  الخالص ج  4ص 218)

 اس روایت  کی ایک دوسری  سند  ہے جس میں مہتم  راوی  ہے (ایضا 4/218)

لہذا یہ سند ضعیف اور مردود ہے ۔

چہارم: بیہقی (2/90) نے عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کا قول  نقل کیا ہے  کہ " من لم يدرك  الامام راكعا يدرك  تلك  الركعة  " جس  نے امام کو رکوع میں نہ پایا اس نے رکعت نہیں پائی ۔

اس روایت کی سند  میں علی  بن عاصم  جمہور محدثین  کے نزدیک  ضعیف ومجروح  ہے  لہذا اس روایت  کو " واسناده  صحيح " کہنا غلط  ہے ۔اس روایت  کی دوسری سند میں ابواسحاق السعیبی  مدلس ہیں لہذا وہ سند بھی ضعیف  ہے ، جب تک سند صحیح  وحسن  نہ ہوتو "ورجاله  موثقون "  کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

 پنجم: ابن  ابی شیبہ  (1/99) طحاوی  (1/223) اور بیہقی (2/90) نے  عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت  کیا ہے کہ وہ مدرک  رکعت  سمجھتے تھے ۔

اس کی سند صحیح  ہے لیکن  یہ صحابی  کا فتوی ہے ۔

6) ابن ابی شیبہ (1/243) نے ابن عمر  رضی اللہ عنہ  سے ان  کا فتوی  نقل کیا ہےجس کا خلاصہ  یہ ہے کہ وہ مدرک رکوع کو مدرک رکعت  سمجھتے تھے ۔

اس روایت  کی سند  حفص  اور ابن جریج  کی تدلیسی  کی وجہ سے ضعیف ہے۔السنن  الکبریٰ للبیہقی  (2/90) میں اس کا  ایک ضعیف  شاہد  بھی ہے ۔اس میں ولید  بن مسلم  ہیں  جو کہ  تدلیس تسویہ  بھی کرتے  تھے  اور سماع مسلسل  کی تصریح  نہیں ہے ۔

7) بیہقی  (2/90) نے زید  بن ثابت  اور ابن عمر رضی اللہ عنہ  سے  نقل کیا ہے  کہ "  ن ادرك الركعة قبل  ان  يرفع الامام راسه  فقد ادرك السجدة " جس نے امام کے سراٹھانے  سے پہلے رکوع پالیا تو اس نے  سجدہ پالیا یعنی رکعت پالی۔

اس روایت  کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف  ہے۔امام مالک نے یہ نہیں بتایا کہ  انھیں یہ روایت کس ذریعے  سے پہنچی  ہے ۔اس موقوف روایت  کی دیگر سندیں  بھی ہیں  ۔ان آثار کے مقابلے  میں امام بخاری  فرماتے  ہیں:

 حدثنا عبيد  بن يعيش قال: حدثنا يونس قال : حدثنا (ابن )اسحاق قال :اخبرني  الاعرج  قال سمعت  ابا هريرة  رضي الله عنه  يقول  لايجزئك  الا ان  تدرك  الامام قائما قبل  ان تركع "

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا  : تیری  رکعتاس وقت  تک جائز نہیں ہوتی  جب  تک  رکوع سے  پہلے  امام کو  حالت قیام  میں نہ پالے ۔ (جزء القراءۃ :132 وسند وحسن  نصر  الباری  ص 182/ 183)

ابو سعید خدری  رضٰی اللہ عنہ  نے فرمایا: لايركع احدكم  حتي  يقرا بام  القرآن"

سورۃ  فاتحہ  پڑھ  لینے  کے بغیر تم میں سے کوئی  بھی  رکوع نہ کرے ۔(جزء القراۃ  :133 وسندہ صحیح )

معلوم ہوا کہ  اس مسئلے  میں صحابہ  کرام کے درمیان اختلاف  ہے جب اختلاف  ہوجائے  تو کتاب وسنت  کی طرف   رجوع کرنے کا حکم  ہے۔

ابن ابی شیبہ  (1/256ح2631) نے عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ  سے نقل  کیا ہے  کہ  وہ رکوع میں چلتے  چلتے  صف  میں شامل  ہوجاتے تھے۔اس روایت  کی سند ابن تیمم کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

 تنبیہ : اس روایت  کا مدرک  رکوع سے  کوئی تعلق  نہیں ہے ۔

9) بیہقی  (2/90) نے  ابوبکر  الصدیق رضی اللہ  عنہ سے  نقل کیا کہ  وہ رکوع میں چلتے  ہوئے  صف میں شامل ہوگئے ۔یہ سند  تدلیس  اور ابوبکر  بن عبدالرحمن  بن الحارث کے انقطاع کی وجہ سے  ضعیف ہے ،یہ کہنا کہ انھوں نے  زید   بن ثابت  سے یہ روایت  لی ہے ۔ بے دلیل ہے ۔

10) مسند احمد (5/42 ح 20435) میں آیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رکعت  ملنے  کے لیے چل  کر آئے  تھے ،اس روایت   کی سند بشار بن عبدالملک  الخیاط  المزنی  کی وجہ سے ضعیف ہے۔اسے  " سندہ  حسن  " کہنا غلط ہے ۔ بشار کو ابن  معین  نے ضعیف  کاہ اور  سند  کے اتصال  میں  بھی نظر ہے ۔

11)  بعض لوگ  کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب۔ میمون  اور شعبی  (تابعین ) اس کے  قائل تھے  کہ مدرک  رکوع مدرک رکعت  ہوتا ہے ۔( دیکھئے  مصنف  ابن ابی شیبہ 1/243۔244)

 تابعین  کے یہ آثار  سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  وغیرہ  کے آثار اور مرفوع احادیچ کے عموم  کے خؒاف  ہونے کی وجہ سے  مردود ہیں ۔

12) طبرانی  نے سیدنا  علی  بن ابی طالب اور سیدنا  ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے  کہ جو  رکوع   نہ پائے وہ سجدہ  شمار نہ کرے۔

یہ  آثار   باسند  صحیح ثابت نہیں ہیں ۔

13) ایک روایت   میں آیا ہے  کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

«لاتبا در وبي  بركوع ولا بسجود فانه  مهما اسبقكم  به اذا ركعت  تدركوني  به  اذا رفعت  واني  قد  بدنت »

 مجھ سے پہلے رکوع اور سجدے  نہ کرو۔ پس بے شک  میں تم سے پہلے  رکوع کروں گا تو تم  مجھ ے اس کے ساتھ پالوگے جب میں سر اٹھاؤں گا۔میرا  بدن  بھاری ہوگیا ہے ،(سنن ابی داود: 619 وسندہ  حسن )

 یہ روایت  مدرک  رکوع کی دلیل نہیں ہے مگر  عینی  حنفی  نے اسے اپنے دلائل میں پیش کردیا ہے  ۔ دیکھئے عمدۃ القاری  (3/153)!

14) ابن  ابی شیبہ  (1/ 242)  نے عروۃ  بن الزبیر (تابعی ) اور زید  بن ثابت سے نقل کیا ہے  کہ  وہ دونوں  جب امام  کو رکوع میں پاتے  تو   دو تکبیریں  کہتے ۔ایک تکبیر  افتتاح  دوسری تکبیر  رکوع ۔ یہ روایت  زہری  کی تدلیس کی  وجہ سے  ضعیف  ہے اور ادراک  رکوع کی دلیل نہیں  ہے۔

15) ابن ابی شیبہ  ( 1/255) نے محمد بن سیرین  سے نقل کیا ہے  کہ ابوعبیدہ  ( بن  عبداللہ  بن مسعود )آئے  اور لوگ  رکوع میں تھے  تو  وہ  چل کر صف  میں شامل ہوگئے اور بیان کیا کہ  ان کے والد نے ایسا ہی کیا تھا۔

 یہ روایت  منقطع  ہے  کیونکہ  ابو عبیدہ نے  اپنے والد سے کچھ  نہیں سنا۔

16) ایک روایت  میں آیا ہے کہ  " عبدالعزيز بن رفيع عن ابن  مغفل  المزني  قال قال النبي صلي الله عليه وسلم  (ولاتعتدوا بالسجود اذالم  تدركوا الركعة ))  (مسائل  احمد واسحاق ١/127/1الصحیحہ 1188)

اس روایت  میں اگر ابن مغفل سے مراد عبداللہ بن مغفل المزنی  رضی اللہ عنہ ہیں تو ان سے عبدالعزیز رفیع کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور  اگر شداد بن معقل  ہیں تو یہ سند منقطع  ہے ۔خلاصہ  یہ کہ اس سلسلے  کی تمام مرفوع روایات بلحاظ سند ضعیف   ہیں ۔ رہے آثار صحابہ  تو ان  میں اختلاف ہے ۔

دوم: جو علماء کہتے  ہیں کہ مدرک  رکوع کی  رکعت نہیں ہوتی  کیونکہ  اس کے دو فرض  رہ گئے  ہیں:

1) قیام                           (2)  سورہ فاتحہ

ان لوگوں کا قول حق بجانب ہے  ۔ نبی ﷺ نے فرمایا :
«لاتفعلوا الا بام القرآن  فانه  لاصلوة  لمن لم يقرا بها»سوره فاتحہ  کے سوا کچھ نہ پڑھو کیونکہ  جو اسے  نہیں پڑھتا تو اس کی نماز  نہیں ہوتی ۔(کتاب  القراءۃ للبیہقی  / نافع  بن محمود و ثقہ  الدار قطنی  والبیہقی  وابن حبان وابن حزم  والذہبی  وغیرہم )

امام بخاری اور بہت سے  جلیل  القدر علماء اس کے قائل  تھے کہ  مدرک  رکوع کی  رکعت نہیں  ہوتی۔ تفصیل کے لیے دیکھئے  مولانا  محمد منیر قمر حفظہ اللہ  کا رسالہ " رکوع میں ملنے  والے کی رکعت، جانبین  کے دلائل  کا جائزه " وما علينا  الاالبلاغ  ( 26/ رجب  1427ھ)                  (الحدیث: 30)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص367

محدث فتویٰ

تبصرے