ایک روایت میں آیا ہے کہ "حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ، قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ» (شرح معانی الاثار اص 235 ابن ابی شیبہ ج ص237)
اس روایت کی تحقیق بتائیں کہ صحیح ہے یا ضعیف؟
شرح معانی الاثار ابن ابی شیبہ کی یہ روایت ضعیف ہے :محدثین کرام مثلا امام ابن معین ،امام احمد بن حنبل اور امام بخاری وغیرہ ہم نے روایت مذکورہ کو ضعیف ووہم قرار دیا ہے ۔
امام یحیی بن معین ؒ نے فرمایا:
حديث ابي بكر عن حصين انما هو توهم منه لااصل له"ابوبکر کی حصین سے روایت اس کا وہم ہے ،اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔(جزء رفع یدین :16 ونصب الرایہ 1/392)
اس روایت پر امام ابن معین کی جرح خاص اور مفسر ہے۔اس کےمقابلے میں منکرین رفع جیدین لاکھ جتن کریں ،یہ حدیث باطل ومردود ہے ۔ابن معین کا نقاد حدیث میں جو مقام ہے وہ حدیث کے ابتدائی طالب علموں پر بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔
اس روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
رواه ابوبكر بن عياش عن حصين عن مجاهد عن ابن عمر وهوباطل "اسے ابوبکر بن عیاش نے حصین عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ باطل ہے ۔(مسائل احمد روایت ابن ہانی ض ج ص 50)
ائمہ حدیث نے ابوبکر بن عیاش کی اس روایت کو وہم وخطا قرار دیا ہے لہذا ان کی یہ روایت باطل وبے اصل ہے ۔
تنبیہ بلیغ : راقم الحروف کی قدیم تحقیق یہ تھی کہ ابوبکر بن عیاش ؒ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہیں ۔ بعد میں جب دوبارہ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ جمہور محدثین کے نزدیک صدوق وموثق راوی ہیں لہذا میں نے اپنی سابقہ حقیق سے اعلانیہ رجوع کیا۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:28ص 54(تحریر 22ربع الثانی 1427ھ)
تفصیل کے لیے دیکھئے نورالعین فی مسئلۃ رفع یدین (ص 168)
خلاصہ یہ کہ قاری ابوبکر بن عیاش ؒ کی یہ روایت شاذ وضعیف ہے جبکہ اس کے برعکس صحیح بخاری ودیگر کتب حدیث سے ثابت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد زمانہ تابعین بھی رفع یدین کرتے تھے (دیکھئے حدیث السراج2/34ح 115)
بلکہ رفع یدین نہ کرنے والے کو کنکریوں سے مارتے تھے ۔(دیکھئے جزء رفع یدین للبخاری وغیرہ ) شہادت ،جولائی 2000)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب