السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اچانک موت جس سے اللہ کے نبی نے پنا ہ مانگی ہے اگر کو ئی نیک آدمی اچانک حادثہ میں فو ت ہو جا تا ہے ایسی موت شہادت کی موت تصور کریں گے یا کہ بری مو ت ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اچانک موت بری نہیں صحیح بخاری میں حدیث ہے :" ایک شخص نے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری ماں ناگہانی مر گئی ہے میرا خیا ل ہے اگر اسے گفتگو کا مو قعہ میسر آتا تووہ صدقہ کرتی پس اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کر دوں تو اس کے لیے ثواب ہے ؟ فر ما یا :" ہاں !وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آدمی نے اپنی ماں کی نا گہانی مو ت کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرا ہت کا اظہار نہیں فر ما یا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حدیث ہذا پر بایں الفا ظ تبو یب قا ئم کی ہے ۔
باب موت الفجاءة البغتة مصنف کا مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اچانک مو ت مکروہ نہیں البتہ اس کو شہید قرار دینے کے لیے کو ئی نص صریح مو جو د نہیں نجا ت کا دارو مدار انسان کی نیت و اعمال پر ہے علامہ عبد الر حمن مبارکپوری مسئلہ ہذا کے بارے میں رقمطراز ہیں ناگہانی مو ت کے با رے میں مختلف روایتیں آئی ہیں بعض سے معلو م ہو تا ہے کہ ناگہانی مو ت اچھی نہیں عبید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فر ما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا گہانی مو ت غضب کی پکڑ ہے ۔ (ابو داؤد )
اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ :"ناگہانی مو ت اچھی ہے :" حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رو ایت ہے کہ :" ناگہانی مو ت مو من کے واسطے را حت ہے اور فاجر کے واسطے ۔غضب ہے ۔(موت الفجاء رافة بالمومن واسف علي الفاجر) موقوفا علي عائشة وعبدالله رواه اب ابي شيبة (٣ /٢٤٧ والبيهقي في الشعب (٧ /٢٥٥) (10218)المشكاة (١٦١١) سكت ابن حجر الفتح (٣ /٢٥٤) وقال المندري :رواته ثقات المرعاة (٥ / 302)(مصنف ابن ابی شیہ)
علمائے حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع وتو فیق بیان کی ہے ۔ کہ جو شخص مو ت سے غا فل نہ ہو اور مر نے کے لیے ہر وقت تیار و مستعددآما دہ رہتا ہو اس کے لیے نا گہانی مو ت اچھی ہے ۔ واللہ تعا لیٰ اعلم (كتاب الجنائز ص:١٤)مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو ۔(فتح الباری :3/۔254۔255)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب