سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(604) بلی کو قتل کرنا

  • 13346
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1712

سوال

(604) بلی کو قتل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تنگ کرنے والی  بلی کو مارنا جا ئز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلی کو قتل کرنا سخت جرم  ہے حدیث میں ہے اسی ظلم  کی پا داش  میں ایک عورت  کو جہنم  میں داخل کردیا  گیا حضرت ابن  عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے مرفوعاً مروی ہے ۔

«عذبت امراة في هرة سجنتها حتي ماتت فدخلت فيها النار لا هي اطعمتها وسقتها اذ حبستها ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض» (المنتهي باب تفقة البهائم)

یعنی ایک عورت کو بلی کے سبب عذاب دیا گیا اس نے اسے قیدی بنائے  رکھا  یہاں  تک کہ وہ مر گئی اس کی وجہ سے آگ میں داخل ہوئی اسے روکے رکھا  کھانے  پینے  کو کچھ  نہ دیا اور نہ آزاد  کیا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا سکے ۔"

نیز گھروں  میں کثرت سے آمد و رفت کی بناء پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو خدا م سے تشبیہ  دی اور رفع  حرج کی بناء  پر فر ما یا :

«انهاليست بنجس انما هي من الطوافين»(رواية الربعة وصححه الترمذي وابن خزيمة)

یعنی’’ بلی پلید  نہیں یہ تو گھر میں چکر لگا نے والوں سے ہے ۔‘‘علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ  فر ماتے ہیں ۔

«والحديث  دليل علي طهارة الهرة وسورها وان باشرت نجسا وانه لا تقييد لطهارة فمها بزمان» (سبل السلام ١ /٢٤)

یعنی" اس حدیث  میں دلیل ہے کہ بلی اور اس کا جو ٹھا پا ک ہے ۔ اگر چہ نجا ست سے ملوث  ہو چکی  ہو اور اس کے  منہ کی طہارت کے لیے مدت کی کو ئی  قید نہیں ۔بلی کی تمام قبا حتوں  کے با و جو د  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اظہار رفق  فر ما یا ہے آپ کی اقتدا میں ہمیں  بھی حیوانوں  سے نر می کرنی چا ہیے ماسوا ئے چند ان جا نو روں  کے جن کے قتل  کی حل و حرم  میں اجازت  عام  مو جو د ہے حدیث  میں ہے ۔

«ان الله تعاليٰ كتب الاحسان علي كل شئي»(رواه مسلم)

پھرقبیلہ دوس کے ایک صحا بی  جلیل  کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلی سے پیا ر و محبت  کی بناء  پر ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نا م سے نواز ا ۔اس قدر غا لب آیا کہ اصل نام اس میں دب کر رہ گیا ۔ ملا حظہ ہو ۔(الاصابۃ وغیرہ)

لہذا اپنی جملہ اشیاء  کی حفا ظت  کا خو د  بندو بست  کر یں  بلی  پر ظلم  و ستم  سے احترا ز کریں ۔ اور جو ظلم  کر چکے  ہیں اس کی رب کے حضور  معا فی  کی درخواست  کر یں ۔﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا﴾

ہاں البتہ ایسی خون  خوار  بلی کو اگر  کہیں  دور دراز علاقہ میں چھوڑ دیا جا ئے تو بظاہر  اس میں کو ئی حرج معلوم نہیں ہوتا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص878

محدث فتویٰ

تبصرے