السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری فیملی میں دو گروپ ہیں۔دونوں ہم عقیدہ ہیں ان دنوں دونوں میں بڑھتی ہوئی رنجش ہے۔ان میں سے ایک بزرگ اپنی اولاد اور متاثرین سے کہتے ہیں مرجائوں تو فلاں شخص(جس کا تعلق مخالف گروہ سے ہے) نہ میرا جنازہ پڑھے پڑھائے اور نہ جنازہ کے ساتھ آئے۔
سوال یہ ہے کہ آیا ایسی وصیت کرنا شرعا درست ہے؟اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔جب کے اس کے بہت گھنائونے اثرات کا ظہور بہت مخدوش بلکہ یقینی ہے۔یہ بھی وضاحت کردینی ضروری ہے کہ ان بزرگ کی اولاد میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ منکر وصیت ہے کیونکہ اس سے خاندان مزید ابتری کی طرف مائل ہوگا اور اصلاح کی ممکنہ صورتیں معدوم ہوجائیں گی۔اور یہ کہ کسی کو ایسی وصیت کہنی ہی نہیں چاہیے جس سے (بعد میں) لواحقین بعد میں فتنہ کا شکار ہوں بلکہ بعد کی باتیں بعد والوں پر چھوڑ دینی چاہیں تاکہ وہ وقت کی مناسبت اور نزاکتکو دیکھ کر معقول فیصلہ کرکے الجھائو سے بچ سکیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی مسلم کے جنازے میں شرکت چونکہ امور خیر میں سے ہے اس کے حصول کی شریعت نے متعدد نصوص میں تخصیص وترغیب دلائی ہے کہ اس کار خیر کا فاعل اتنے اتنے اجروثواب کا مستحق ہوگا چونکہ یہ استحقاق بندہ کو اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ہے لہذا دنیاوی کدورتوں اور نزاعات کی بنیاد پر اسمیں کسی کو ر کاوٹ بننے کا کوئی اختیار نہیں۔موصی کو اس قسم کی وصیت فلاں اور فلاں میرے جنازے میں شریک نہ ہوں ناقابل عمل اور اپنے اختیارات کی حدود سے تجاوز کرنا ہے۔قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَن خافَ مِن موصٍ جَنَفًا أَو إِثمًا فَأَصلَحَ بَينَهُم فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٨٢﴾... سورة البقرة
''اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہوتو اگر وہ(وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔''
لہذا جملہ ورثاء اور عام مسلمان بلاتردد مرحوم کی نماز جنازہ میں شرکت کے حقدار ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب