السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کوئی شخص دوسرے کی جگہ پر قسم اٹھا سکتا ہے؟
مثلاً فریقین میں تنازعہ چل رہا تھا۔دوران تنازعہ زید پارٹی کا آدمی قتل ہوگیا۔زید پارٹی نے قتل بکر پارٹی پر ڈال دیا کچھ عرصہ کیس چلنے کے بعد بکر پارٹی بری ہوگئی پھر بکر پارٹی کا آدمی قتل ہوگیا انہوں نے قتل زید پارٹی پر ڈال دیا اور ان کے چند آدمی گرفتار کروادیئے جب کہ زید پارٹی اپنے آپ کو اس قتل سے بری الذمہ قرار دیتی ہے۔اب بکر پارٹی کہتی ہے کہ تمہاری جگہ پر فلاں فلاں شخص قسم دے دیں کہ زید پارٹی نے قتل نہیں کیا تو ہم آپ کو چھوڑ دیں گے۔ کیا اس صورت میں ان کی جگہ قسم دی جاسکتی ہے؟ جب کہ قسم دینے والا موقع کا چشم دید گواہ نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوسرے کی امانت ودیانت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی طرف سے قسم کھائی جاسکتی ہے۔اس کی واضح مثال مسئلہ قسامت ہے۔اس کی صورت یوں ہے کہ مثلاً کسی جگہ کوئی آدمی قتل ہوجاتا ہے اور قاتل کا علم نہیں تو اس صورت میں اولیاء مقتول میں سے پچاس آدمی قسمیں کھا کر وضاحت کریں کہ فلاں قبیلہ نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے۔اور اگر مدعیان قسم کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر مدعا علیہم میں سے پچاس آدمی قسمیں کھا کر بری ہوجاتے ہیں۔یہ وہ صورت ہے جو جاہلیت میں قبل از اسلام بھی مروج تھی اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ا پنی صحیح میں بعض نسخوں کے مطابق اس پر یوں تبویب قائم کی ہے۔پھر اس کے تحت بسلسلہ قسامت ابو طالب کا ایک طویل قصہ نقل کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلی مسائل میں سے ایک ہے۔جس کو اسلام نے برقرار رکھا ہے۔(المنقتی ما جاء فی القسامۃ فی الجاہلیۃ) بعد میں اسی نہج پر قریباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفیصلہ صادر فرمایا چنانچہ صحیح روایات میں موجود ہے کہ خیبر میں عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہوگیا تھا۔اس کے ورثاء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو فرمایا:
«تحلفون خمسین یمینا وتستحقون قاتلکم او صاحبکم»فوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من عنده بمائة ناقة»(متفق عليه)
یعنی تم میں سے پچاس آدمی قسمیں کھالیں تو قتل کا استحقاق ثابت ہوجائے گا۔ورنہ:
«فتبراكم يهود في ايمان خمسين منهم»
یعنی'' بصورت دیگر پچاس یہودی قسمیں کھا کر بری الذمہ ہوجائیں گے۔''
نصوص صریحہ سے یہ بات عیاں ہے کہ اثبات قتل یا اظہار بریت کا تعلق بشمول حالفین نیا بتاً قبیلہ کے سب افراد سے ہوتا ہے جو دوسرے کی طرف سے قسم کھانے کے جواز کی دلیل ہے۔
نیز یہ بھی یاد رہے کہ شہادت کےلئے مشاہدہ کی بجائے علم بھی کافی ہوسکتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَكَذٰلِكَ جَعَلنـٰكُم أُمَّةً وَسَطًا لِتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ وَيَكونَ الرَّسولُ عَلَيكُم شَهيدًا...١٤٣﴾... سورة البقرة
''اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ بنیں۔''
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب