سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(557) یتیم بچی کی کفالت

  • 13299
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2195

سوال

(557) یتیم بچی کی کفالت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علما ئے دین و مفتیا ن  شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص  عا بد کی شادی  پروین اختر  سے ہو ئی پرو ین اختر سے عا بد کی ایک لڑکی پیدا ہو ئی بعد میں عا بد فو ت ہو گیا پرو ین اختر  کے والدین  کچھ  عرصہ بعد اپنی بچی  پروین  اختر  کو مع  بچی  کے لے  جا تے  ہیں  کچھ  عرصہ  والدین   پروین اختر  کو گھر  بٹھا ئے رکھتے  ہیں بعد میں اس کی شادی  کسی دوسری جگہ  کر دیتے  ہیں  اب بچی  کے دادا (عابد کے والد ) نے اپنی پو تی  کو اس کے ننھیا ل  سے لینے  کا مطا  لبہ کیا ہے تا کہ  اس کی  کفا لت  کریں کیا وہ اس کے حقدار ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ حضا نت (پرورش ) میں سب سے زیادہ حقدار والدہ ہے اس لیے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرا می ہے :

«الخالة بمنزلة الام» صحيح البخاري كتاب المغازي باب عمرة القضاء (٤٢٥١) الترمذي(١٩0٤) احمد رقم ح (770-931-شاكر)ابو دائود (2280)

یعنی"خا لہ بمنزلہ ماں ہے ۔"

 اس سے معلوم ہوا کہ والد ہ کو بچے کی پرورش میں اہمیت حاصل  ہے صاحب "تیسیرا العلام "مذکورہ حدیث  سے مو خوذ و مستنبط  مسا ئل کی نشاندہی  کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں ۔

«ان الام مقدمة في الحضانة علي كل احد فانه لم يعطها الخالة في هذه القصة الا انها بمنزلة الام بكمال شفقتها وبرها»(٢/٣-٥-٣-٦)

یعنی " ماں حضا نت  میں ہر ایک پرمقدم ہے  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جعفر  کی بیوی کی کفا لت میں بنت حمزہ کو صرف اس بناء پر دیا تھا کہ خالہ  قا ئم مقام ماں کے ہے نیز اس لیے کہ خالہ میں احسان و سلو ک  اور شفقت  و محبت  حد درجہ ہو تی ہے ۔

مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت  کی شادی کے با وجو د  کفالت کا حق سا قط  نہیں ہو تا کیو نکہ مذکورہ عورت  جس کی کفا لت  میں حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی کو دیا گیا تھا وہ حضرت جعفر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکا ح  میں تھی  حدیث  کے الفا ظ  یو ں ہیں ۔

«ابنته عمي وخالتها تحتي» صحيح البخاري كتاب المغازي باب عمرة القضاء (٤٢٥١) الترمذي(١٩0٤) احمد رقم ح (770-931-شاكر)ابو دائود (2280)

یعنی"یہ بچی  میرے چچا  کی بیٹی  ہے اور اس کی خا لہ میرے  نکا ح  میں ہے "لیکن دوسری ایک روایت جو مسند  احمد   رحمۃ اللہ علیہ اور ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ  میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العا ص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے اس میں یہ ہے کہ  ایک عورت  اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت  میں حا ضر ہو ئی کہ اس کا سا بقہ خاوند جس نے اس کو طلا ق دی تھی اس سے بچہ  چھیننا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

«انت احق به مالم تنكحي» صححه احمد شاكر٥ وحسنه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الطلاق باب من احق بالولد (٢٢٧٦) احمد ٢/١٨٢(6707)شاكر

یعنی "جب تک تو نکا ح  نہ کر ے تو اس کی  زیادہ حقدار ہے ۔"

اس حدیث  سے معلو م ہو تا ہے کہ عورت کے دوسری جگہ شادی کر نے سے حق حضا نت ختم ہو جا تا ہے جس طرح بعض کا استدلا ل قصہ  ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی  ہے  کہ جب ان کی شادی  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہو ئی تھی تو ان کی اولاد ان کے زیر کفالت تھی ۔

بعض اہل علم نے ان مختلف روایا ت کو اس طرح جمع کیا ہے  کہ مزوجہ کا خاوند اگر رضا مندی کا اظہار کرے تو حق حضا نت  ختم  نہیں ہو گا ۔ بصورت  دیگر ختم ہے  کیو نکہ  حق  حضانت  ختم  ہو نے کی بنیادی  وجہ خاوند کے حقوق  و فرا ئض  کی ادائیگی  میں کمی  کا احتمال ہے ۔

لہذا صورت مر قومہ میں پروین اختر کا ( دوسرا خا وند ) بچی کی کفا لت پر راضی ہے تو یہ بچی  والدہ کی کفالت میں رہے گی  بصورت دیگر دادا کو واپس  کردی جا ئے ۔هذا ما عندي  والله اعلم بالصواب وعلمه اتم

مزید  تفصیل کے لیے  ملا حظہ  ہو ۔نیل الاوطا ر جزء 6ص348۔352)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص835

محدث فتویٰ

تبصرے