السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری رہائش گا ہ کے نزدیک ایک پرا نا قبر ستا ن واقع تھا جس میں آخری قبر جو بنا ئی گئی تھی وہ 12سال پرا نی ہے عرصہ 6سال قبل مالک زمین نے قبر یں مسمار کر کے رہا ئش اختیا ر کر لی ہے آپ مہر با نی فرما کر تفصیل سے جواب ارسال فرمائیں ۔
(1)۔قبروں کو مسمار کر کے رہا ئش اختیا ر کی جا سکتی ہے ؟
(2)۔دوران رہا ئش اگر عبادت کی جا ئے تو درست ہو گی قبروں والی جگہ پر مو یشی رکھے جا سکتے ہیں قبر کو مسما ر کر نے سے پہلے کو ڑا کرکٹ قبروں پر پڑا رہتا تھا قبریں مسمار کر نے والے پر پرچہ بھی ہو گیا ہے اس شخص نے زمین ایک دوسرے شخص کے پاس بیچ دی ہے آیا خریدنے والے کے لیے رہائش اختیار کرنا گناہ تو نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلما نو ں کی قبریں اکھا ڑ کر رہائش اختیا ر کرنا درست نہیں ہے البتہ قبر یں اگر بے نشان ہو چکی ہوں تو تعمیر میں کو ئی حرج معلوم نہیں ہوتا اور جہاں تک کفارکی قبروں کا تعلق ہے سووہاں ہر دوصورت میں بلا تر دو رہائشی مکا ن تعمیر کیا جا سکتا ہے ملا حظہ ہو۔
«صحيح البخاري باب هل ينبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد»
اور مذکور مقام چونکہ مو جو دہ صورت میں قبر ستان نہیں رہا اس لیے اس میں عبادت کرنا درست فعل ہے حدیث میں ہے ۔
«الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام» (رواه الخمسة الا النسائي)
یعنی "تمام زمین مسجد ہے مگر قبرستان اور حمام ۔"
اور جس شخص نے اس زمین کو خرید کیا ہے وہ بری الذمہ اصلاً مجرم تو پہلا انسان ہے جس نے مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے ۔
«لاتصلوا الي القبور ولا تجلسوا عليها» (رواه الجماعة الاالبخاري وابن ماجه)
یعنی""نہ قبروں کی طرف نماز پڑھو اور نہ ان کے اوپر بیٹھو ۔"
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب