السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علما ئے کرا م و مفتیان عظام درج ذیل مسا ئل کے با رے میں آج کل تقریباً تمام اسکو لو ں میں یہ رواج پا یا جا تا ہے کہ جب کو ئی ٹیچر کسی کلا س میں جا تا ہے تو سب بچے اپنی اپنی جگہ پر کھڑ ے ہو جاتے ہیں جب تک استاد کرسی پر نہ بیٹھے یا بچوں کو نیچے بیٹھنے کا حکم نہ دے پو ری کلا س کھڑی رہتی ہے اسی طرح جب کو ئی عالم دین کسی کے پا س ملاقات کے لیے جا تا ہے تو وہ لو گ بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جا تے ہیں جب تک وہ نہ بیٹھے کھڑے رہتے ہیں اور اسی طرح اسکولوں میں جب ہما را قومی ترا نہ گا یا جا تا ہے تو اساتذہ سمیت تمام طلباء سجدہ کی جگہ نظریں جمائے کھڑے رہتے ہیں ےتو کیا یہ قیام کتاب وسنت کی رو شنی میں جا ئز ہے یا حرا م ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلا ف ہے ایک گرو ہ اساتذہ کرا م اور بڑے بزرگوں وغیرہ کے لیے بطور احترا م کھڑے ہو نے کا قائل ہے ان میں سے امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ اور غزالی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ہیں ان کا استدلال فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
«قوموا الي سيدكم»سے ہے ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری نے کہا ہے ۔
«في هذا الحديث امر الامام الاعظم باكرام الكبير من المسلمين ومشروعية اكرام اهل الفضل في مجلس الامام الاعظم والقيام فيه لغيره من اصحابه والزام الناس كافة بالقيام الي الكبير منهم» (فتح الباری 11/49)
اورجو لو گ منع کے قائل ہیں ان کا استدلا ل ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصا پر ٹیک لگا ئے نکلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے ہو ئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کے لیے کھڑے مت ہو ں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا جواب دیا ہے کہ اس کی سند میں اضطرا ب ہے اور اس میں بعض راوی غیر معروف ہیں اور اسی طرح ان کا استدلال آپ کے اس ارشاد سے ہے ۔
«من اراد ان يتمثل له الرجال قياما وجبت له النار»
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یو ں دیا ہے کہ اس سے مراد وہ لو گ ہیں جو کھڑاہو نے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اکرام کے لیے اس میں نہی کا ذکر نہیں اور ابن قتیبہ نے جواب یو ں دیا کہ اس سے مراد سر پر کھڑے رہنا ہے جس طرح عجمی شاہان کی عادت تھی ادر ابن بطال نے جواز کے لیے نسائی کی روایت سے استدلال کیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آتے دیکھ کر خوش آمد ید کہتے پھر کھڑے ہو کر اس کا بو سہ لیتے پھر ہا تھ پکڑ کر اپنی جگہ بٹھا لیتے ۔یہ روایت ترمذی اور ابو داؤد وغیرہ میں بھی ہے اور قصہ تو بہ کعب بن مالک میں ہے۔
«فقام الي طلحة بن عبيد الله يهروني»
یعنی"طلحہ بن عبید اللہ میری طرف دوڑتے ہو ئے آئے ۔"اس طرح کے بہت سارے دلائل جا نبین سے دئیے جا تے ہیں ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ نے "المدخل"میں امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ کے جملہ مستندات کے جوابات دینے کی سعی کی ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "فتح الباری"میں سوال و جواب کی طویل بحث کی ہے جو ایک محقق کے لیے بے حد مفید ہے ۔اختتا م بحث پر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کہ نظر یہ کو پسند فر مایا ہے ۔
«القيام علي سبيل الاالاعظام مكروه وعلي سبيل الاكرام لا يكره» (11/54)
"کسی کی برا ئی کے لیے کھڑاہو نا مکروہ اور عزت وا حترام کی خاطر کھڑا ہو نا جائز ہے ۔«وهذا تفصيل حسن»یہ اچھی وضاحت ہے فی الواقع دونو ں طرف روایات موجود ہیں جواز کے اعتقاد کے با وجود احتیاط اس میں ہے کہ بطور اکرا م کھڑا نہ ہو اس لیے کہ عام حالات میں صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہیں ہو تے تھے بسا اوقات آپ نے منع بھی فرمایا سوال میں مرقوم پہلی دونوں صورتیں تو قطع نظر احترا م کے محض ایک عادت مستمرًہ معلوم ہوتی ہے کتا ب و سنت یا سلف صا لحین کے عمل سے اس کی مثال ملنی مشکل ہے لہذا اس سے احتراز کرنا چاہیے اور قومی ترا نہ کے احترا م میں کھڑا ہو نا تو قطعاً بدعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
"یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے ۔’’
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب