السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قصہ ہاروت و ماروت کی قرآن کی رو شنی میں وضا حت فرمایئے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قصہ ہاروت وماروت اللہ رب العزت نے سورہ بقرہ آیت :102 کے ضمن میں با یں الفا ظ بیان فرمایا ہے ۔
﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ ۖ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ ۚ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر ۖ فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ ۚ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم ۚ وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ ۚ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ۚ لَو كانوا يَعلَمونَ ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة
اوران (ہزالیا ت ) کے پیچھے لگ گئے جو سلیما ن علیہ السلام کے عہد سلطنت میں شیا طین پڑھا کر تے تھے سلیما ن علیہ السلام نے مطلق کفر کی با ت نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کر تے تھے کہ لو گو ں کو جا دوسکھا تے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے ) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی ) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں اور دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ )آزمائش ہیں کفر میں نہ پڑو بعض لو گ سے ایسا (جادو )سیکھتے جس سے میاں بیو ی میں جدائی ڈال دیں اور اللہ کے حکم کے سواوہ اس (جا دو ) سے کسی کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے تھے اور کچھ ایسے (منتر ) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچا تے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص اپنی چیزوں (یعنی سحروغیرہ )کا خریدار ہو گا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جا نوں کو بیچ ڈالا وہ بری تھی کا ش وہ (اس بات کو ) جا نتے اس آیت کریمہ میں اس جا دو کا بیان ہے جس پر ۔''ارزل خلق اللہ ''یہود عامل تھے پھر یہ ان اشیاء میں سے ہے جن کو شیا طین نے سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے عہد میں گھڑاتھا (تاکہ اللہ کی مخلو ق کو ورغلا یا اور پھسلا یا جا سکے )اور اس کا تعلق اس سے بھی ہے جو کچھ بابل کی سرزمین میں ہاروت اور ماروت پر نا زل ہوا تھا ثانی الذ کر عہد کے اعتبار سے اول الذکر سے متقدم ہے کیونکہ قصہ ہاروت و ماروت بقول ابن اسحاق زمانہ نو ح علیہ السلام سے پہلے کا ہے جا دو حضرت نو ح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھا کیونکہ اللہ نے خبر دی ہے کہ قوم نوح علیہ السلام کا دعویٰ مزعومہ تھا کہ یہ (نو ح ) علیہ السلام ساحر ہے اسی طرح جادو قوم فرعون میں بھی پھیلا ہوا تھا یہ سارا کچھ عہد سلیمان سے (بہت) پہلے کا ہے اس آیت سے کیا مراد ہے؟اس کے بارے میں لو گو ں کا اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ سلیما ن علیہ السلام نے سحرو کہانت کی کتا بوں کو جمع کر کے اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیا کو ئی شیطان کرسی کے نزدیک پھٹک نہیں سکتا تھا جب سلیمان علیہ السلام اور وہ علما ء جن کو اصل معاملہ سے آگاہی تھی فوت ہو گئے تو شیطان انسانی شکل میں ان کے پاس آیا یہودیوں سے کہا میں آپ کو ایک ایسا خزانہ بتاتا ہوں جوبے مثال اور بے نظیر ہے کہا ہاں بتا ؤ !انہوں نے کرسی کے نیچے کھدائی کر کے ان کتا بوں کو حاصل کر لیا تو شیطان نے ان سے کہا سلیمان علیہ السلام کو انہی کے ذریعہ جن وانس پر کنٹرول حاصل تھا اس واقعہ سے یہ بات عام پھیل گئی کہ سلیمان ساحرتھا جب قرآن نے سلیما ن علیہ السلام کا تذکرہ انبیا ء میں کیا تو انہوں نےاس بات سے انکا ر کیا کہا :وہ تو جا دو گر تھا ۔تو یہ آیت نازل ہو ئی ۔(تفسیر طبری )
حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قصہ ہاروت وما روت مسند احمد میں بسند حسن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں مروی ہے طبری نےاس واقعہ کے کئی طرق بیان کئے ہیں ۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس قصہ کا اصل مو جو د ہے بخلاف ان لو گو ں کے جنہوں نے اس قصہ کو باطل قرار دیا ہے جیسے قاضی عیاض وغیرہ حاصل اس کا یہ ہے کہ اللہ نے بطور آزمائش دو فر شتوں میں شہوت و دیعت کردی پھر ان کو حکم دیا کہ زمین پر ۔قضاء کے فرائض سر انجا م دو مدت دراز تک انہوں نے بصورت بشر زمین پر عدل و انصاف قائم کئے رکھا پھر حسین و جمیل عورت پر فر یفتہ ہو کر فتنہ میں پڑگئے اس بنا پر ان کو بطور سزا بابل کے کنوئیں میں الٹا لٹکا دیا گیا ان کی ابتلا ء علم کے ذریعے ہی ہو ئی جو اس علم تک رسا ئی چاہتا ان کا قصد کرتا وہ اس وقت تک کسی کو تعلیم نہ دیتے جب تک اسے ڈراتے او منع نہ کر لیتے جب کسی کو اصرار ہوتا تو اس سے گفتگو کرتے اور تعلیم دیتے اس علم کی حقیقت ان پر منکشف تھی لو گ ان سے ان اشیاء کی تعلم حا صل کرتے جن کی وضاحت قرآن میں ہے ( فتح الباری 10/225)
﴿مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ﴾میں صحیح مسلک یہ ہے کہ ماموصولہ ہے ان لوگو ں کا مسلک غلط ہے جنہوں نے اس کو مانا فیہ بنایا ہے کیو نکہ نظم کلا م اس سے انکا ری ہے ۔"تتلو ا"لفظ فعل مضارع ہے لیکن یہ ماضی کی جگہ واقع ہے یہ استعمال کلا م عر ب میں معروف ہے اور "تتلوا کا معنی منقول ہے اسی بنا ء پر اس کا "علی " سے تعد یہ ہے ۔
﴿وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ﴾کا ما یقینی طور پر نا فیہ ہے اور﴿وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا﴾میں واؤعاطفہ ہے اور یہ ما قبل سے جملہ استدراکیہ ہے﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾ النَّاسَ مفعول اور (السِّحْرَ)مفعول ثانی ہے ۔جملہ (كَفَرُوا)کے فاعل سے حال ہے اي كفروا معلمين اور (وَمَا أُنزِلَ)میں "ما"موصولہ محل نصب میں ہے ۔ السِّحْرَپر عطف ہے تقدیر عبارت یو ں ہے ﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ﴾
"یعنی لو گو ں کو جا دو کی تعلیم دیتے تھے اور اس شئے کی دو فرشتوں پر نازل ہو ئی تھی اور ۔﴿ بِبَابِلَ مَا أُنزِلَ﴾کے متعلق ہے باء بمعنی فی ہے جمہور کے نزدیک ۔( الْمَلَكَيْنِ)لا م کے فتحہ سے ہے بعض نے اس کو کسر ہ سے بھی پڑھا ہے ہاروت وماروت ۔ الْمَلَكَيْنِ سے بدل ہے جو فتحہ کے ساتھ ہے یا عطف بیان ہے یہ تعلیم اندازی تھی طلبی نہیں تھی ۔
﴿وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ﴾کا عطف ماتتلوا پر ہے معنی یہ ہیں کہ تابعداری کی انہوں نے اس چیز کی جو پڑھتے تھے شیطان سلیمان علیہ السلام کی بادشا ہی میں اور اس چیز کی دو فر شتوں ہا رو ت او رمارو ت پر ناز ل ہو ئی
(الْمَلَكَيْنِ)لا م کے کسرہ کے ساتھ قرات غیر معروف ہے لا م کے فتحہ سے ہے زیر کی صورت میں معنی یو ں ہو گا کہ ہا رو ت و ما رو ت کے ساتھ جب خواہشات نفسانی لگا دی گئیں تو وہ گو یا مرد بن گئے اور جب قاضی بنائے گئے تو اس طرح سے باد شا ہ ہو گئے پس دونوں قرآت آپس میں موافق ہو گئیں بعض لو گ ۔﴿ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ﴾کے ما کو نفی کا بنا تے ہیں اور معنی یو ں کرتے ہیں کہ نہیں اتاری گئی فرشتوں پر کوئی چیز (جا دوسے)اور لفظ" ببابل"کو﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾سے متعلق بنا تے ہیں یعنی شیطان لو گو ں کو جا دو با بل شہر میں سکھاتے تھے اور ہا رو ت اور ما روت کو شیا طین سے بدل بنا تے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہا رو ت اور ما رو ت شیطان تھے اور وجہ یہ بیان کر تے ہیں کہ جب جا دو کفر ہے تو فر شتوں پر کس طرح اتاراجا سکتا ہے اور وہ لو گو ں کو کس طرح سکھا سکتے ہیں اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اللہ جس چیز کے ساتھ چاہے بندوں کی آزمائش کرے اسی لیے و ہ پہلے کہہ دیتے کہ یہ کفر ہے تاکہ کو ئی شخص دھو کے میں نہ رہے ۔ جب کہ کو ئی باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اور نظم قرآن کے لحا ظ سے "ماانزل "کے "ما"کو نفی کے لیے بنانا صحیح نہیں کیوں کہاس سے نظم قرآن میں کئی کمزوریاں پیدا ہو تی ہیں ۔
(1)ببابل کا تعلق اگر ۔(بما انزل)سے ہو تو پھر ہا رو ت ما رو ت کو شیاطین سے بدل بنانا صحیح نہیں کیو نکہ شیاطین صیغہ جمع ہے جب کہ ہا رو ت ما رو ت تثنیہ ہے نیز ملکین سے بدل نہ بنانا تو اس سے یہ سمجھا جا تا ہے کہ جا دو ملکین پر اتارا گیا ہے لیکن بابل میں نہیں بلکہ کسی اور جگہ اور اگر "ببابل "کا تعلق ۔﴿ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ﴾سے ہو تو وہ بہت دور ہے در میا ن میں اور کلا م آگیا اس سے عبارت میں خلل پیدا ہوتا ہے ۔
(2)ہا رو ت ماروت ظاہر نظم کے لحاظ سے "ملکین "سے بدل ہے کیو نکہ "ملکین "تثنیہ ہے اور ہا رو ت ماروت بھی دو ہیں نیز ہا روت اور ما روت میں قرب بھی ہے ہا روت ماروت کو شیا طین سے بدل بنانا ظاہر نظم کے بالکل خلا ف ہے ۔کما تقدم
(3)اگر ہاروت وماروت شیطان ہو ں تو پھر ان کا تبلیغ کرنا کہ ہم آزمائش میں ہیں تو کفر نہ کر یہ صحیح نہیں کیوں کہ نیکی کی تبلیغ کی تو قع شیاطین سے نہیں ہو سکتی پس صحیح معنی وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ ما انزل کا تعلق ماتتلوا سے ہے اور معنی یوں ہے کہ تا بعداری کی انہوں نے اس چیز کی جو وہ پڑھتے تھے شیاطین سلیمان علیہ السلام کے عہد میں اور اس چیز کی جو اتاری گئی دوفرشتوں ہاروت وماروت پر بابل میں ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب