سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(464) تعزیت کے لیے تین دن فوت شدہ آدمی کے گھر جانا

  • 13205
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1093

سوال

(464) تعزیت کے لیے تین دن فوت شدہ آدمی کے گھر جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فوت شدہ آدمی کے گھر تین دن کے بعد  تعزیت کی خاطر جانا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعزیت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ممکنہ حد تک قریب ترین فرصت میں اظہار  تعزیت ہونا چاہیے۔جس طرح کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیٹی کے بچے کی وفات پر بایں الفاظ تعزیب فرمائی:

«ان لله ما اخذ وله ما اعطي وكل شئي عنده باجل مسمي»

مزید علامہ ابن قیم  فرماتے ہیں:

«تعزيه اهل الميت ولم يكن من هديه ان يجتمع للعزاء ويقراله القرآن لا عند قبره ولا غيره وكل بدعة حادثه مكروهة وكان من هديه السكون والرضا بقضاء الله والحمدلله والا استرجاع ويبرا ممن خرق لا جل المصيبة ثيابه او رفع صوته بالندب والنياحة او حلق لها شعره وكان من هديه ان اهل الميت لا يتكلفون اطعام الناس بل امر ان يصنع الناس لهم طعاما يرسلونه الههم وهذا من اعظم مكارم الاخلاق والثيم والاحمل عن اهل الميت فانهم في شغل بمصابهم عن اطعام الناس وكان من هديه ترك نعي الميت بل كان ينهيٰ عنه ويقول هو من عمل الحاهلية وقد كره حذيفة ان يعلم به اهله الناس اذا مات و قال: اخاف ان يكون من النعي»(ذاد ا لمعاد الجزء الاول ص:١٤٦)

یعنی ''تعزیت  کے لئے اہل میت کے ہاں جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا اور نہ میت کے لئے قرآن خوانی کرنا قبر کے پاس اور نہ اس کے علاوہ یہ جملہ امور خود ساختہ بدعات مکروہ میں شامل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرتے اور اللہ کی قضا وقدر کے ساتھ رضاء کا اظہار فرماتے۔اللہ کی حمد وثناء کرتے۔''انا للہ'' پڑھتے۔جو آدمی  مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑتا یا نوحہ کرتا یا سر مڈاتا اس سے بیزاری کا اظہار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے یہ بھی ہے کہ اہل میت لوگوں کو کھانا کھلانے کی تکلیف نہ کریں۔بلکہ لوگ کھانا  تیار کرکے ان کے پاس نہ بھیجیں یہ بات آپ کے عظیم اخلاق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اہل میت کی پریشانی کی بناء پرلوگوں کو کھانا کھلانے کابوجھ ان سے ہلکا کردیا ہے۔اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی کی موت پر واویلا اور تشہر عام کرنے سے روکتے فرماتے یہ جاہلیت کے اُمور سے ہے۔حضرت حذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مکروہ سمجھا کہ ان کے اہل خانہ ان کی وفات کی کسی کو اطلاع کریں۔کہا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ ''نعی' میں شمار :

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص756

محدث فتویٰ

تبصرے