السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مردوں کو سلام کہا جائے تو کیا وہ سنتے ہیں،اگر سنتے ہیں تو جواب دیتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی صحیح حدیث میں بوقت سلام اموات کے سماع اور پھر جواب دینے کی تصریح موجود نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں نفی مصرح ہے:
﴿وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة فاطر
''اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سناسکتے۔''
دوسری جگہ ہے:
﴿نَّكَ لا تُسمِعُ المَوتىٰ وَلا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوا مُدبِرينَ ﴿٨٠﴾... سورة النمل
نیز فرمایا:
﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف
'' اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے۔''
اگر کوئی کہے دعائیہ کلمات میں صیغہ تخاطب ونداء کا تقاضا ہے کہ مردوں کو سماعت حاصل ہو،سو اس اشکال کاجواب یوں ہے کہ عربی زبان کا اُسلوب ہے کہ'' ما لا یفعل '' سے بسا اوقات معاملہ ''زوی العقول'' جیسا کیا جاتا ہے جس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ''حجر اسود'' سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا۔’’اني لا علم انك حجر ’’(1)اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیں۔
فقہاء حنفیہ نے بے شمار نصوص میں مردوں کے عدم سماع کی تصریح کی ہے۔بطور امثلہ چند ایک نمونے ملاحظہ فرمائیں:
علامہ ابن الھمام ''فتح القدیر'' کتاب الجنائز میں فرماتے ہیں:
«هذا عند اكثر مشائخنا وهو ان الميت لايسمع عندهم علي ما صرحوا به في كتاب الايمان في باب اليمين بالضرب لو حلف لا يكلم فلانا فكلمه ميتا لا يحنث لانها تنعقد علي ما حيث يفهم والميت ليس كذلك لعدم استماع(انتهيٰ)’’وايضا فيه في ذلك الباب قوله:وكذلك الكلام يعني اذا حلف لا ي يكلمه اقتصر علي الحيوة فلو كلمه بعد موته لا يحنث فان المقصود منه الافهام والموت ينافيه لانه لا يسمع فلان يفهم ّانهتيٰ»صحيح مسلم كتاب الحج باب استحباب تقبيل الحجر الاسود في الطواف (3067)
اور ''فصول فی علم الاصول'' میں ہے:
«لو حلف لا يكلم فلانا وكلمه بعد الموت او ضربه بعد الموت لا يحنث لعدم معني الافهام والاعلام»
اور ''اصول الشاشی'' میں ہے:
«من حلف لا يكلم فلانا فكلمه بعد الموت لا يحنث لعدم الاسماع»
اورتفسیر''جامع البیان''میں زیرآیت﴿وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ﴾ ہے:
«ای الکفار الذین کالموتیٰ لا یسمعون»
اور تفسیر ''جلالین میں ہے:
«ای الکفار شبههم بهم في عدم السماع»
اور بدر کے مقتولین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطاب فرمایاتھا اس کاجواب بعض حنفیہ نے یوں دیا ہے:
«ولئن ثبت فهو مختص بالنبي صلي الله عليه وسلم ويجوز ان يكون ذلك لوعظ الاحياء لا علي سبيل الخطاب للموتيٰ»
یعنی''اگر یہ قصہ ثابت ہوجائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہوگا۔اور یہ بھی جائز ہے کہ مقصود اس سے زندہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا ہو مردوں کے لئے خطاب نہیں۔'' (فتاویٰ علمائے اہلحدیث:444/5)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب