السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاعورتوں کاقبرستان میں جانا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتوں کو زیارت قبور کی گاہے بگاہے اجازت ہے ۔بشرط یہ کہ وہاں جزع فزع بے صبری بے قراری اور چیخنے چلانے کا مظاہرہ نہ کیاجائے جواز پر دال چند ایک احادیث ملاحظہ ہوں:
1۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر کے پا س بیٹھے رو رہی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اتقی اللہ واصبری»(بخاری ومسلم )
"اللہ سے ڈرااور صبر کر ۔''
وجہ استدلال یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو صرف اللہ کے ڈر اور صبر کی تلقین کی ہے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا۔اگر یہ ناجائز ہوتا تو روک دیتے اصو فقہ میں قاعدہ معروف ہے۔
«تاخیر البیان عن وقت الحاجة لايجوز»
2۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جب میں قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں؟فرمایا پڑھ:
«السلام و عليكم اهل الديار من المومنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين وانا ان شاء الله بكم لاحقون» انظر الرقم المسلسل (515) (مسلم و نسائی )
(3)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھا ئی عبد الرحمٰن کی قبر کی زیارت کی تو عبداللہ بن ابی ملیکہ نے ان سے دریافت کیا ۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ کہا ہاں مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زیارت قبور کی اجازت فرمادی تھی۔ صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ما یقال عند دخول القبور (975)
حافظ عراقی نے کہا اس کی سند جید ہے ۔(تخریج احیاء علوم الدین 4/521)
"اور علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔بعض اہل علم نے ترمذی کی رویا ت میں وارد لعنت کو کثرت زیارت پر محمول کیا ہے کیونکہ زوارات مبا لغہ کا صیغہ ہے (المرعاۃ(2/252)
نیزامام مو صوف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اگر عورت قبرستان میں زیادہ نہ جا ئے نوحہ نہ کرے مرد کے حقوق ضائع نہ کرے تو اس کو جا نا جائز ہے ورنہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو زیارت کرنے والی عورتوں کو لعنت کی ہے یہ رخصت سے پہلے تھی جب رخصت ہوئی توعورتوں مردوں سب کو ہوگئی اور عورتوں کےلیے جو زیادہ مکروہ ہیں وہ صرف بے قراری اور بے صبری کی وجہ سے ہے ۔"اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس کو اعتماد کے قابل ولائق بتایا ہے بلا شبہ مختلف احادیث کو تطبیق دینے کی یہ ایک بہترین صورت ہے ۔ واللہ اعلم ۔
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ''نیل الاوطار'' میں اس عبارت کے اختتام پر فرماتے ہیں:
«وهذا الكلام هو الذي ينبغي اعتماده في الجمع بين الاحاديث المتعارضة في الظاھر »
یعنی '' قرطبی کا یہ کلام قابل اعتماد ہے جس سے بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔'' مذید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:فتح الباری 3/248)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب