السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہمارے آباءواجداد کی قبریں ہم نے اپنے گھر میں بنوائی تھی۔اور لوگ اب ان کی پوجا وپرستش کا ارادہ رکھتے ہیں۔جس کی وجہ سے کئی دفعہ ہمارا لوگوں سے جھگڑا بھی ہوچکا ہے اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان قبروں کا یہاں سے نام ونشان ہی مٹادیا جائے تاکہ شرک کا خطرہ باقی نہ رہے۔کیا شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
توحید وسنت کے احیاء کی خاطر اور جذبہ ایمانی کے تقاضوں کے مطابق آپ لوگوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی جدی پشتی قبروں کو زمینی سطح کے ہموار کردیں تاکہ کسی بھی قبر پرست اور غیر اللہ کے پجاری کی نگاہ ان کی طرف اٹھنے نہ پائے۔چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہے:
ابو الہیاج اسدی کا بیان ہے مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کیا میں تجھے اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا؟
1۔'' جو تصویر نظر آئے اسے مٹا کردم لو۔''
2۔'' ہر وہ قبر جو بلند ہوا سے زمین کے برابر کردو۔'' صحيح مسلم كتاب الجنائز باب الامر بتسوية القبر (٢٣٤٣) (مسلم)
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے ثمامہ بن شفی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سرزمین روم میں سفر کررہے تھے کہ رودس کے مقام پر ہمارا ایک ساتھی فوت ہوگیا۔فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق اس کی قبر زمین کے برابر کردی گئی۔پھر فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیاکرتے تھے۔ صحيح مسلم كتاب الجنائز باب الامر بتسوية القبر (٢٢٤٢) عن فضالة بن عبيد
اسی طرح کتب تاریخ وسیر میں یہ قصہ معروف ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جب تستر میں ہرمز کے مخزن سے دانیال علیہ السلام کی لاش برآمد ہوئی تو مختلف مقامات پر تیرہ قبریں کھود کر ان کو دفن کرکے رات کی تاریکی میں مٹی کے برابر کرکے قبروں کا نام ونشان مٹادیاگیا تاکہ عامۃ الناس اور جہلاء کے لئے فتنہ کا سبب نہ بنے۔
پھر حدیبیہ کے مقام پر جس درخت کے زیر سایہ''بیعت الرضوان'' کاانعقاد ہواتھا جب اس کے بارے میں خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کے لئے اہتمام کرتے ہیں تو اس کو جڑ سے کٹوا پھینکا باوجود یہ کہ اس شجرہ عظیمہ کا تذکرہ کتاب الٰہی میں بھی مصرح ہے جو اس کی عظمت پر دال ہے۔
مزید آنکہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحالت سفر ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔پھر دیکھا کہ لوگ ادھر ادھر جارہے ہیں۔دریافت کیا کہ یہ کہاں جاتے ہیں۔؟کہا گیا: اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسجد ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تھی یہ اسی میں نماز پڑھتے ہیں۔فرمایا:پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں کہ انہوں نے انبیاء علیہ السلام کے آثار کی پیروی میں ان جگہوں میں عبادت خانے اور گرجے بنالئے۔جس شخص کو ان مسجدوں میں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھے ورنہ گزر جائے۔
پھر سب سے بین اور واضح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فتنے سے بچانے کی غرض سے ہی ''مسجد ضرار'' کو منہدم کردیا تھا۔یہاں قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں گھروں میں قبریں بنانا مذموم فعل اور منکر کام ہے صحیح مسلم میں حدیث ہے:
«لا تجعلوا بيوتكم مقابر»
یعنی'' اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔''
شارح بخاری شریف حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فان ظاهره يقتضي النهي عن الدفن في البيوت مطلقا ’’والله اعلم.
(فتح الباری :1/530)
یعنی'' مذکور حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ گھروں میں قبریں بنانا مطلقا ً ممنوع ہے۔''
بنا بریں گھروں میں قبروں کے آثار باقی رکھنا بھی ممنوع ٹھرا ،لازم ہے کہ فعل منکر کو تبدیل کیا جائے اس کی صورت یوں ہوسکتی ہے۔اگر تو یہ قبریں گزر گاہ سے الگ ہیں۔تو ان کو زمین کے برابر کردیا جائے۔اوراگر راستے میں پڑتی ہیں۔تو ہڈیاں نکال کر مسلمانوں کے عمومی قبرستان میں دفن کردی جائیں۔البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مشرکین اور گور پرستوں کو جائے دفن کا علم نہ ہونے پائے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ لوگ پھر کسی وقت یہاں شرک وبدعت کا اڈا قائم کرلیں۔لہذا آپ بھی اس کار خیر میں مساہمت اور مسابقت کے جذبہ کا اظہار فرمائیں۔والتوفیق بید اللہ
مذید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔اغاثہ اللھفان من مصاید الشیطان للحافظ ابن قیم (ص 222تا231 اور فتاویٰ اھل حدیث :3/441 تا445)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب