سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(449) نمازِ جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا مانگنا

  • 13190
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3688

سوال

(449) نمازِ جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ  سے فارغ ہو چکنے کے بعد  میت کے لیے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟کیا حدیث «اذا صليتم علي الميت فاخلصواله الدعاء»"جب تم  میت  کی جنا زہ پڑھو تواس کے لیے خصوصی طور پر دعائیں کرو ۔اور ابن شیبہ  کی حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کہ "انھوں نے نماز جنازہ  پڑھی  پھر میت کے لیے  دعا کی سے اس کا جواز نکلتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا نماز جنازہ  سے فارغ  ہو چکنے  کے فوراً بعد میت کے لیے  دعا کا جواز ہے یانہیں ؟۔۔۔نماز جنازہ کے بعد  دعا مانگنے کی دلیل کے طور پر سوال میں مذکور دو روایات  پیش  کی گئی  ہیں لیکن  درست بات یہ ہے کہ میت کے لیے دعا نماز  جنازہ کے دوران دعا مانگی جائے ۔پہلی حدیث کی تشریح  بقول علامہ مناوی  رحمۃ اللہ علیہ یوں ہے ۔

"میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیو نکہ اس نماز  سے مقصود  صرف میت کے لیے سفارش کرنا ہے جب دعا میں اخلا ص اور عاجزی ہو گی تواسے قبول ہو نے کی امید  ہے ۔"(عون المعبود 3/188)

اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو امامہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے :

«ويخلص الصلاة في التكبيرات الثلاث»

یعنی "جنازہ  کی تین تکبروں کے دوران اخلاص دعا کرے ۔"

مستدرک حاکم کی اس حدیث  سے اس امر کی وضاحت  ہو گئی  کہ دعا کا تعلق خالصتاًحالت نماز کے ساتھ  ہے نہ کہ بعد  از نماز  سے اصول فقہ کا معروف  قاعدہ ہے کہ :"الاحاديث يفسر بعضها بعضا..."احادیث ایک دوسری  کی تفسیر  کرتی ہیں ۔"اس بناء پر اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نماز جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لیے  خلوص کے ساتھ  دعا کرو ۔یہ  «اقامة المسبب مقام السبب»(سبب بول کر مسبب مراد لینا)کی قبیل سے ہے ارادہ سبب اور نماز مسبب ہے حدیث کے الفاظ «فاخلصوا»میں فاء کے ترتیب و تعقیب بلا مہلت  ہو نے کا یہی مطلب ہے ۔اگر مقصود یہاں نماز جنازہ سے فراغت کے بعد دعا ہو تی تو پھر  فاء کی بجا ئے لفظ "ثم"ہونا چاہیے تھا جو عام حالات  میں تر تیب اور تراخی کا فائدہ دیتا ہے احناف  کی یہ تو جیہ غلط ہے فاء"تعقیب"کا یہ مطلب  ہے کہ نماز کے بعد دعا کی جا ئے ۔علا وہ ازیں یہ حدیث  سنن ابو داؤداور سنن ابن ماجہ  وغیرہ میں ہے اور امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ  نےاس حدیث  کو جنازہ کے دوران  دعا پڑھنے کے ضمن  میں ذکر  کیا ہے انہوں نےاس پر عنوا ن یوں قائم کیا ہے ۔

(باب الدعاء للميت)اور اس حدیث پر امام ابن ماجہ  رحمۃ اللہ علیہ کی تبویب بھی ملاحظہ  فرمائیں  اور بار بار غور سے پڑھیں :

«باب ماجاء في الدعاء في الصلاة علي الجنازة»

یعنی"نماز جنازہ  میں دعا  کے بارے  میں جو کچھ آیا ہے ۔اس کا بیان ۔۔۔

اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور احناف کے فہم  میں زمین و آسمان کا فرق ہے لہذا اس تحریف  پر انہیں ندا مت کا اظہار  کر کے حق کی طرف رجوع کی فکر  کرنی چاہیے ۔حضرت  عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول  ہے ۔

«مراجعة الحق خير من التمادي في الباطل»

"باطل پر اصرار  سے بہتر ہے کہ آدمی  حق کی طرف رجوع کر لے ۔(اعلام الموقعین )

اس کی مثال  یو ں سمجھیں  جیسے قرآن  مجید  میں ہے :

﴿فَإِذا قَرَ‌أتَ القُر‌ءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطـٰنِ الرَّ‌جيمِ ﴿٩٨﴾... سورة النحل

"جب تم قرآن  پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔"

ائمہ لغت"زجا ج" وغیرہ نےاس کا معنی یوں بیان کیا ہے ۔

«اذا اردت ان تقرا القرآن فاستعذ بالله وليس معناه استعاذ بعد ان تقرا القرآن»

"جب آپ قرآن کی تلا وت کا ارادہ کریں تواللہ سے پنا ہ مانگ لیا کریں اس کا یہ معنی نہیں کہ تلا وت قرآن کے بعد "اعوذباللہ "پڑھا کرو ۔"

اسی کی مثل  قائل  کا قو ل ہے :

«اذا اكلت فقل: بسم الله»

یعنی "جب تو کھا نے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھنی چاہیے "۔۔۔امام واحدی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔"فقہاء  کرا م کا اس بات پر اجتماع  ہے کہ "استعاذہ"قراءت سے پہلے  ہے ۔" (تفسیر فتح القدیر:3/193)

بلا شبہ شرح میں دعا کی بالعموم تا کید  ہے غالباًاس بناء پر فقہاء حنفیہ نے جنازہ میں قراءت  سے استغنائی پہلو اختیار  کر کے اس کا نا م دعاء  و ثناء  وغیرہ رکھا ہے مؤطا امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے «لاقراءة علي الجنازة وهو قول ابي حنيفة»اور یہ قول "المبسوط "للسرخسی  رحمۃ اللہ علیہ  میں بھی ہے (2/64)۔۔۔البتہ محقق ابن الہام فتح القدیر(1/489)

"فاتحہ نہ پڑھے  تا ہم بہ نیت ثنا پڑھی  جا سکتی  ہے کیونکہ قراءت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں ۔"علامہ ابن الہام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی  ناقابل فہم  ہے اس لیے کہ فاتحہ کی قراءت  کا اثبات تو صحیح  بخاری  میں موجود ہے ۔«باب قراءة فاتحة الكتاب علي الجنازة»

تو پھر کیا یہ بات معقول  ہے کہ اثناء  جنا زہ میں اخلا ص  دعا  کی تا کید  تو نہ ہو لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہا جا ئے کہ اب اخلا ص سے دعا کرو غالباًاس دھوکہ  کے پیش نظر حنفی بھا ئی نماز جنازہ کا تو جھٹکا کرتے  ہیں بعد میں لمبی لمبی  دعائیں  کی جا تی ہیں جس کی شریعت  میں کو ئی اصل نہیں ۔

اصول فقہ کا قاعدہ  معروف ہے کہ "عبادات میں اصل "حظر"(ممانعت) ہے جواز کے لیے دلیل کی ضرورت ہو تی ہے ۔"عہد نبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے کسی ایک مو قع  پر بھی  ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جنا زہ کے بعد دعا  کی ہو صحیح بخا ری  میں حدیث  ہے ۔

«من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد» صحيح البخاري كتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود (٢٦٩٧) (بخاری ومسلم)

یعنی'' جوکوئی دین میں اضا فہ کرتا ہے وہ مردود ہے۔''

امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :

«عليك بالاثر وطريقة السلف واياك وكل محدثة فانها بدعة»

"آثار اور طریقہ  سلف کو لا زم پکڑ و اپنے آپ کو دین میں کمی بیشی  سے بچاؤ وہ بدعت ہے ۔"(ذم التاویل از ابن قدامہ)

ابن الماجثون نے  کہا کہ میں نے اما م  ما لک  رحمۃ اللہ علیہ  سے سنا وہ فرما تے تھے ۔

"جو دین میں بدعت ایجاد کر کے اسے اچھا سمجھے  تو گو یا وہ یہ باور کرا تا ہے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رسالت میں خیانت کی ہے اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا ۚ فَمَنِ اضطُرَّ‌ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ‌ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿٣﴾... سورة المائدة

جو شے اس وقت دین نہیں  تھی  وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی ۔( الاعتصام في زم البدع (١/٣٣) للشاطبي)

امام شا فعی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :"جس نے بدعت کو اچھا سمجھا اس نے نئی  شریعت بنا لی ۔(السنن والمبتدعات)

رہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا اثر (فعل صحابی)تو اس کا تعلق نماز جنازہ کے متصل بعد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دفن میت کے بعد سے ہے  کیو نکہ مصنف نے اس اثر پر عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکو رہ جملہ آثار  اسی بات پر دلا لت کرتے ہیں کہ اس دعا کا تعلق  تدفین  میت کے بعد  سے ہے عنوان کے الفاظ ملا حظہ فرمایئے

«باب في الدعاء للميت بعد ما يدفن ويسوٰي عليه»

"قبر پر مٹی  برابر کر کے میت کے لیے دعا کرنے کا بیان ۔"

اور تد فین کے بعد میت کے لیے دعا کرنا ثابت شدہ امرہے جس میں کسی کا کو ئی اختلا ف نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ  بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے :"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو عبد اللہ ذی النجا دین کی قبر پر دیکھا  جب دفن  سے فا رغ ہو ئے تو قبلہ  رخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی ۔(اخرجہ ابو عوانۃ فی صحیح فتح الباری 11/144)

تمام بھلائی سنت  نبوی کی پیروی میں ہے اور بدعت میں شرہی شرہے  اللہ رب العزت جملہ مسلما نو ں کو "صراط مستقیم"پر چلنے کی تو فیق بخشے ۔آمین!

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص741

محدث فتویٰ

تبصرے