سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(481) حالت احرام میں جماع کرنے کرنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟

  • 1319
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3547

سوال

(481) حالت احرام میں جماع کرنے کرنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو حالت احرام میں جماع کرے جبکہ اسے اس حالت میں جماع کی حرمت کا علم نہ ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

معلوم ہے کہ جماع حالت احرام میں ممنوع ہے بلکہ احرام کے بڑے بڑے حرام امور میں سے ایک ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـتٌ فَمَن فَرَضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ...﴿١٩٧﴾... سورة البقرة

’’حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے، وہ حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے، نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے۔‘‘

﴿رَفَثَ﴾ کے معنی جماع اور اس کے مقدمات کے ہیں۔ جماع احرام کے ممنوعات میں سے سب سے سنگین جرم ہے۔ انسان نے جب حج کا احرام باندھا ہو اور وہ جماع کرے، تو یہ جماع یا تو پہلی دفعہ حلال ہونے سے قبل ہوگا یا اس کے بعد اور اگر پہلی دفعہ حلال ہونے سے قبل ہو تو اس صورت میں جماع پر درج ذیل امور مرتب ہوں گے:

1۔         حج فاسد ہو جائے گا اور اس طرح فرض یا نفل کوئی حج بھی ادا نہ ہوگا۔

2۔        اس سے گناہ لازم آئے گا۔

3۔        فاسد ہونے کے باوجود حج کو جاری رکھ کر مکمل کرنا ہوگا اور اس فاسد حج کے تمام احکام اسی طرح مکمل کرنے ہوں گے جس طرح صحیح حج کے احکام پورے کیے جاتے ہیں۔

4۔        آئندہ سال اس حج کی قضا کی ادائیگی واجب ہوگی، حج خواہ فرض ہو یا نفل۔ فرض حج میں وجوب قضا تو ظاہر ہے کیونکہ جماع کرنے سے فریضہ حج ادا نہ ہوگا اور حج نفل ہو تو اسے بھی جاری رکھنا واجب ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة

’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو ۔‘‘

حج کی مشغولیت کو اللہ تعالیٰ نے ’’فرض‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـتٌ فَمَن فَرَضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ...﴿١٩٧﴾... سورة البقرة

’’حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے، وہ حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے، نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے۔‘‘

اسی لیے ہم نے یہ کہا ہے کہ اس فاسد حج کی قضا واجب ہوگی، حج خواہ فرض ہو یا نفل۔

۵۔     اپنے اس فعل کے کفارے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر کے مکہ کے فقرا میں تقسیم کرنا ہوگا۔ اونٹ کے بجائے اگر سات بکریاں ذبح کر دے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ تمام احکام اس صورت میں ہیں جب جماع پہلی دفعہ حلال ہونے سے قبل کیا ہو۔

اگر جماع پہلی دفعہ حلال ہونے کے بعد ہو تو اس صورت میں گناہ لازم آئے گا اور احرام فاسد ہو جائے گا اور ایک بکری ذبح کر کے فقرا میں تقسیم کرنی ہوگی یا وہ چھ مسکینوں کو نصف صاع گندم وغیرہ فی کس دے دے یا تین روزے رکھ لے، اسے اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو کام چاہے کر لے۔ علاوہ ازیں اسے قریب ترین مقام حل (میقات) سے احرام باندھنا ہوگا تاکہ وہ احرام میں طواف افاضہ کر سکے۔ ہمارے فقہاء کا اس مسئلے میں یہی قول ہے۔

اگر سوال کیا جائے کہ تحلل اول (پہلی مرتبہ حلال ہونا) کب حاصل ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحلل اول اس وقت حاصل ہوگا جب عید کے دن جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار دی جائیں اور سر کے بال منڈوایا کٹوا دیے جائیں تو اس سے تحلل اول حاصل ہو جاتا ہے اور احرام کی وجہ سے، عورتوں کے سوا، دیگر تمام ممنوع امور حلال ہو جاتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

«کُنْتُ أُطَيِّبُ النبیِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِحْرَامِهِ قبل أنَ يُحْرِمُ وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ» (صحيح البخاري، الحج، باب الطيب عند الاحرام، ح: ۱۵۳۹ وصحيح مسلم، الحج، باب الطيب للمحرم عند الاحرام، ه: ۱۱۸۹، ۳۳)

’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو احرام باندھنے سے قبل احرام کی تیاری کے لیے اور بیت اللہ کے طواف سے قبل حلال ہونے کے لیے خوشبو لگایا کرتی تھی۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حلال ہونے کے معاً بعد طواف کرنا چاہیے اور طواف سے پہلے حجامت بنوا لی جائے کیونکہ جیسا کہ ہم نے قبل ازیں ذکر کیا ہے تحلل اول عید کے دن جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور سر کے بالوں کو منڈوانے یا کٹوانے سے حاصل ہوتا ہے۔ جماع اگر اس تحلل اول سے پہلے ہو تو اس کی وجہ سے وہ پانچ امور مرتب ہوں گے، جنہیں قبل ازیں ہم بیان کر چکے ہیں اور جو جماع تحلل اول کے بعد ہو تو اس کی وجہ سے گناہ لازم آئے گا، احرام فاسد ہو جائے گا، حج فاسد نہیں ہوگا اور فدیہ یا مسکینوں کو کھانا کھلانا یا روزے واجب ہوں گے، خواہ وہ مکہ میں رکھ لیے جائیں یا کسی دوسری جگہ، خواہ مسلسل رکھے جائیں یا الگ الگ، دونوں طرح جائز ہے۔ اگر یہ شخص جاہل ہو یعنی اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حرام ہے، تو پھر اس پر کوئی چیز واجب نہیں، خواہ اس نے تحلل اول سے قبل جماع کیا ہو یا بعد میں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا رَبَّنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘

اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥... سورة الأحزاب

’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اگر کہا جائے کہ جب اس شخص کو یہ علم ہو کہ حالت احرام میں جماع حرام ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر یہ احکام مرتب ہوں گے تو کیا اس صورت میں وہ معذور ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عذر نہیں ہے اس لئے کہ عذر کی صورت یہ ہے کہ انسان جاہل ہو اور اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ یہ چیز حرام ہے اور اس چیز پر مرتب ہونے والے امور سے جاہل ہونا عذر نہیں ہے اگر کسی شادی شدہ شخص کو یہ علم ہو کہ زنا حرام ہے اور وہ بالغ و عاقل ہو اور اس کے حق میں احصان کی شرائط پوری ہوں، تو اسے رجم کرنا واجب ہوگا اور اگر وہ یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ اس حد کی صورت رجم ہے اور اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی زنا نہ کرتا تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ عذر قبول نہیں ہے، اورتمہارے لیے رجم واجب ہے، خواہ تمہیں زنا کی سزا معلوم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا، جس نے رمضان کے دنوں میں جماع کر لیا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کفارہ لازم قرار دیا تھا۔ [1]حالانکہ جماع کے وقت اسے یہ علم نہ تھا کہ اس کی پاداش میں اس پر کیا واجب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص معصیت کی جرأت کرے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کی بے حرمتی کرے تو اس پر اس معصیت کے اثرات و نتائج مرتب ہوں گے، خواہ معصیت کے ارتکاب کے وقت اسے ان اثرات و نتائج کا علم نہ بھی ہو۔

 


[1]              صحیح البخاري، الصوم، باب اذا جامع فی رمضان ولم یکن لہ شیء… حدیث: ۱۹۳۶۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ424

محدث فتویٰ

تبصرے