سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(400) انشورنس کی شرعی حیثیت

  • 13140
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1427

سوال

(400) انشورنس کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا انشورنس  کروانا  جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامی میں انشورنس  کرا نا ناجائز  ہے کیو نکہ  اس میں حرام خوری  کی متعدد  صورتیں  پائی جاتی  ہیں چنانچہ  بیمہ کمپنیوں کے ہاں یہ طے شدہ اصول ہے کہ جس چیز کا  بیمہ ہو چکا ہے اگر وہ معینہ  مدت  سے پہلے  مر جا ئے  یا ہلا ک  ہو جا  ئے تو بیمہ  کی پو ری رقم  اس کے  ورثا ء  یا مالکوں کو ادا کی جا تی ہے اور اگر وہ مقررہ مدت تک زندہ  رہے  تو کل جمع شدہ  رقم مع سود اس کوادا کی جا تی ہے اور اگر کچھ قسطیں ادا کر کے باقی  کی ادائیگی  سے وہ قصد اًانکار کردے  یا مجبوراً وہ ادا نہ کرسکے تو  پھر  ادا شدہ  رقم  بحق کمپنی ضبط  کرلی جا تی ہے سوال یہ ہے کہ پوری رقم  کس معاملہ  میں  ادا کی جاتی  ہے جب  کہ اصل تعلق حوادث  کی وجہ  سے پہلے  ہی  منقطع  ہو چکا ہے ظاہر ہے کہ کمپنی نے یہ پیسہ  سود پر لگا رکھا ہوتا ہے جس کا ادنی ٰ منا فع اس کے ورثاء  کو دیا جا تا ہے باقی وہ ذمہ دار ان خود ہضم  کر جاتے  ہیں اور  اگر کہا جا ئے کہ بیمہ  کرا نے  والا تو " مضارب"ہے یہ بھی غلط  ہے کیونکہ "مضاربت"میں تو نسبت حصہ کا تعین ہوتا ہے اور طرفین  نفع  ونقصان میں برابر کے شر یک رہتے ہیں جب کہ بیمہ کمپنیوں  کے ہاں نسبت ادائیگی  پہلے سے متعین  ہوتی  ہے اسی نام کا نام سود  ہے اس طرح یہ بھی ممکن  ہے  بعد میں بیمہ  کرانے  والے  کی رقم  پہلے کو ادا کی جائے ۔

سوال یہ ہے کہ پہلے  کو یہ کس حق کے تحت دی گئی  ہے اس کا نا م قمار نہ رکھا جا ئے تو اور کیا ہے ؟ نیز  کچھ  قسطوں  کی ادائیگی  کے بعد  باقی سے عاجز آجانا قصداً رقم جمع  نہ کرا نے کی صورت میں جمع شدہ رقم ضبط  کر لینا کو ن سے شرعی  ضابطہ میں جائزہے ؟یہ دوسرے کا مال باطل  طریقہ سے کھا نا  نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟

انہی  قباحتوں  کی بناء  پر انشورنس کاکاروبار کرنا حرام ہے ۔دراصل معاملہ  ہذا یورپ  کے مظالم سر مایہ داری کاطبعی تقاضا ہے دین اسلام میں اس کے جواز کا تصور بھی  ناممکن  اور محال ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص706

محدث فتویٰ

تبصرے