سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(398) انشورنس بیمہ کی شرعی حیثیت

  • 13138
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2802

سوال

(398) انشورنس بیمہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

انشورنس بیمہ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ متقدمین اور متاخرین  علماء اہل حدیث  وعلما ئے دیوبند سے جو انشورنس کے حق  میں ہیں ان کے دلائل کہاں تک درست ہیں اور جوعلماء  بیمہ  کے خلاف ہیں ان کے دلائل کہاں درست ہیں ۔جب کہ عوا م الناس کا خیال ہے کہ اگر اسلامی حکومت ہوتو وہ انسانی جان کے ضیاع  کی صورت میں بال  بچوں کی کفالت کا بو جھ بیت المال سے ادا کرتی ہے غیر اسلامی حکومت میں انسان کے مرنے یامار دینے کی حالت میں اس کی کو ئی  قدر  قیمت  نہیں تواس غیر اسلامی حکومت میں انشورنس  کی کیا صورت ہوگی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام نے بڑے صاف اور واضح انداز  میں حلال  اور حرام  کے مشکل ترین مسائل کو کھول  کھول  کر بیان کردیا  ہے اس کےلیے  کچھ قواعد و ضوابط  بھی مقرر فرمائے ہیں جو راہنما اصول کی حیثیت  رکھتے  ہیں ایک مومن مسلما ن کے لیے  ضروری ہے کہ تاحیات پیش  آمدہ حوائج  وضروریات کو اسی اصول  پر پر کھے  تاکہ اس کا معیار  زندگی اللہ  اور اس کے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق  بن کر دائمی  بشارتوں  سے بہر ہ ور ہو سکے ۔ فی الجملہ  شریعت  نے باہمی  کاروبار  کی بنیا د  نفع اور نقصان میں اشتراک  پر رکھی ہے ۔"مضاربت "اور "مقارضت"کے حل طلب مسائل کے لیے اسی کو اصل الاصول قرار دیاگیا ہے جب کہ صورت مسئولہ میں نفع کا پہلو صرف غالب ہی نہیں  بلکہ حتمی و یقینی ہے بلکہ آغاز عمل سے منا فع کی شرح اور مقدار بھی متعین ہوتی ہے جوواضح  طور پراس کے سود ہونے کی دلیل ہے نیز لفظ "بیمہ"بھی جملہ  تحفظات کا ضامن ہے جس میں سرمائے کے خسا رے کا کو ئی امکا ن نہیں بلکہ اس کو تجارتی سود میں استعمال  کرکے کئی گنا اضافہ کیا جاتا ہے جس کی قلیل نسبت طالب بیمہ کے حصہ میں آتی ہے صورت ہذا مذکور شرعی ضابطے کے منا فی ہے اور اگر "بیمہ"کرانے والا اقساط کی ادائیگی  کے درمیان  انتقال کر گیا تو کمپنی  پھر بھی مخصوص وارث  کو معاہد ہ کے مطابق رقم واپس  کر نے کی پا بند ہوتی  ہے اس لحاظ سے یہ قمار(جوا )ٹھہرا اور میت کے دیگر  ورثاء اگر موجود بھی ہوں تو ان کو محروم  کردیا جاتا ہے اس اعتبار  سے یہ ظلم  بھی ہے اور بعض دفعہ  یہ وارث  طالب "بیمہ "کواس طمع سے قتل کردیتا ہے کہ اس کی مخصوص رقم پر قبضہ  جما لے اور اگر یہ کل قسطیں ادانہ کرسکا عاجز آگیا  توادا شدہ رقم بھی بحق  کمپنی ضبط ہوجا ئے گی جو دھوکہ کی شکل ہے اتنی ساری قباحتوں کی موجودگی  میں انشورنس"بیمہ "کی حلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا  بلکہ اس کی جتنی  بھی  صورتیں  ہیں  سب حرام ہیں کیوں کہ ہر صورت  میں محور  سود کو بنا یا جا تا ہے ۔اور دوسری طرف  جو لو گ  اس کی حلت اور جواز  کے قائل  ہیں ان  کے پاس شرعی کو ئی  ثبوت  نہیں الا یہ کہ ان کے سامنے  انسانی  ہمدردی  کا پہلو  نما یاں  ہے ۔ لیکن غور و فکر  کی با ت  یہ ہے  کہ انسانی  ہمدردی  بھی تو صرف وہی قابل  اعتماد ہوتی ہے جس کی اصل شرعی  تعلیما ت  پر ہووہ کیسی ہمدردی  ہے  جہاں  اشرف  المخلوقا ت  کو حرا م خوری کا عادی بنا جا ئے ۔لاحول ولا قوة الا بالله۔

اور حکو مت  وقت اگر مستحقین  کا احساس  نہیں کرتی تواس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں ہے کہ اللہ عزوجل کی منہیات  کا ارتکا ب  کیا جا ئے بلکہ اس کے  لیے  بہترین  صورت  یہ ہے کہ "صندوق البر"(فلاح و بہبود  فنڈ)کے نام سے ایک فنڈ  قا ئم  کیا جا ئے جس میں احباب  کو ماہانہ رقم جمع کرانے کی تر غیب دی جائے پھر بلا معاوضہ  حسب ضرورت  اس سے محتاجوں  سے تعاون کیا جا ئے ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ۔

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ... ﴿٢﴾... سورة المائدة

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص705

محدث فتویٰ

تبصرے