السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چوبیس افراد مل کر ایک کمیٹی ڈالتے ہیں اور سوروپے روزانہ جمع کرتے ہیں اس طرح ایک آدمی گویا کہ تین ہزار روپے ماہانہ جمع کراتا ہے اور چوبیس افراد کی اس رقم سے ہر ماہ بہتر ہزار (72000)روپے جمع ہوجاتے ہیں ہر ماہ ایک بولی ہوتی ہے جس کاطریقہ یہ ہے کہ جو آدمی اس بہتر ہزار روپے میں سے کم سے کم بولی دے کرکمیٹی حاصل کرے وہ اس کو دے دی جائے گی مثلاً ایک آدمی کہتا ہے کہ میں ساٹھ ہزار (60000)روپے میں لیتا ہوں اور بارہ ہزار روپے (12000)چھوڑدیتا ہوں اس کے مقا بلے میں ایک آدمی کم ۔
بولی دیتا ہے اور ساٹھ ہزار کی بجا ئے پچاس ہزار روپے لیتا ہے تو کمیٹی کم بولی دینے والے کومل جائے گی اس طرح بقیہ بائیس ہزار(22000)روپے تمام کمیٹی کےافراد میں مساوی تقسیم کردئیے جائیں گے اور اس طرح چوبیس ماہ ہر مہینہ ایسا ہی ہوگا ۔سوال یہ ہے کہ :
(1)کیا یہ سود ہے اور اگر ہے تواس کی کون سی شکل ہے ؟
(2)اگر ایک آدمی کمیٹی کاحصہ دار ہولیکن وہ کہے کہ میں نے (72000)دینا ہے اور (72000)ہزارروپیہ واپس لینا ہےاس لیے کہ میں سود نہیں کھانا چاہتا توآیا وہ شخص کس اعتبار سے (شرکت یااور وجہ سے)مجرم ہے یانہیں ؟
(3)اگر وہ اس جرم میں ملوث ہےتو آیا اس کو مسجد کاامام بنایاجاسکتا ہے اور اس کے پیچھے نماز کاکیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)۔۔صورت مرقومہ بلاشبہ سود کی ایک شکل ہے اسلام نے ربویات میں جواصول مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک جنس کی بیع اپنی ہی جنس سے کمی بیشی کےساتھ ناجائز ہے الایہ کہ اس میں مساوات اور نفس مجلس میں تقابض ہوتو پھر جا ئز ہے جب کہ مذکوہ صورت اس طرح نہیں لہذا وہ صریحاً حرام ہے ۔
(2)۔ایسے لوگوں کےساتھ شرکت بھی ناجائز ہے اس لیے کہ یہ تعاون علی الاثم کے زمرہ میں آتا ہے ۔قرآن مجید میں ہے :
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ...﴿٢﴾... سورة المائدة
"نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔"
اور ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوشخص انگور کاٹنے کے دنوں میں انگور بند رکھے یہاں تک کہ شراب بنانے والے کے ہاتھ فروخت کردے تو وہ دیدہ دانستہ آگ میں جاگھسا ۔اس سے معلوم ہوا مجرموں کامعاون اور شریک کار نہیں بننا چاہیے۔
(3)۔۔۔ایسا شخص امامت کااہل نہیں تمام متقدیوں کو مسئلے کی نوعیت سمجھا کراسے معزول کردینا چاہیے صحیح حدیث میں ہے :
«من غذي بالحرام فقد حرم الله عليه الجنة»
یعنی"جس کی نشو نما حرام مال سے ہوئی اس پر جنت حرام ہے ۔"
اور دوسری روایت میں ہے :
«اجعلوا ائمتكم خياركم»
یعنی "اپنے امام پسند یدہ لوگوں کو بناؤ ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب