سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(474) تلبیہ کے مسنون الفاظ

  • 1312
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3317

سوال

(474) تلبیہ کے مسنون الفاظ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے تلبیہ کے کون سے صحیح الفاظ ثابت ہیں؟ عمرہ و حج میں تلبیہ کب ختم کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت شدہ تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں:

«لَبَّيْکَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيْکَ لَکَ»(صحيح البخاري، الحج، باب التلبية، ح: ۱۵۴۹، وصحيح مسلم، الحج، باب التلبية وصفتها، ح: ۱۱۸۴)

’’میں حاضر ہوں۔ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک ساری تعریفیں اور نعمتیں تیری ہی ہیں اور سارا ملک بھی تیرا ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

امام نسائی رحمہ اللہ  نے مزید یہ الفاظ بھی بیان فرمائے ہیں:

«لَبَّيْکَ اِلٰهَ الْحَقِّ» (سنن النسائي، المناسک، باب کيف التلبية، ح: ۲۷۵۳)

’’اے معبود حقیقی! میں حاضر ہوں۔‘‘

اس روایت کی سند حسن ہے۔ عمرہ کرنے والا اس وقت تلبیہ بند کر دے جب وہ طواف شروع کرے اور حج کرنے والا اس وقت تلبیہ بند کرے، جب وہ عید کے دن جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارے کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس مرفوع حدیث کو روایت کیا ہے:

«اَنَّهَ کَانَ يُمْسِکُ عَنِ الْتَلْبِيَةِ فِی الْعُمْرَةِ اِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ» (سنن ابي داؤد، المناسک، باب متی يقطع المعتمر التلبية، ح: ۱۸۱۷، وجامع الترمذي، الحج، باب ماجاء متی تقطع التلبية فی العمرة، ح: ۹۱۹)

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عمرے میں تلبیہ سے اس وقت رک جاتے تھے جب حجر اسود کو بوسہ دیتے۔‘‘

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہے جسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کی سواری پر سوار تھے اور پھر مزدلفہ سے منیٰ تک آپ نے حضرت فضل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، ان دونوں نے روایت کی ہے:

«لَمْ يَزَلِ يُلَبِّی حَتَّی رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ» (صحيح البخاري، الحج، باب الرکوب والارتداف فی الحج، ح: ۱۵۴۳)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔‘‘

امام مالک رحمہ اللہ  کے نزدیک عمرہ میں تلبیہ حرم میں پہنچنے کے بعد بند کر دینا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیت اللہ کے پاس پہنچ کر یا بیت اللہ کو دیکھ کر تلبیہ بند کردینا چاہیے۔ لبیک کے معنی اطاعت بجا لانا اور دعوت قبول کرنا ہیں یہ لفظ اگرچہ تثنیہ کا ہے لیکن کثرت کے معنی میں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ420

محدث فتویٰ

تبصرے