سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(363) پارلیمنٹ کی رکنیت اور کوئی سرکاری عہدہ قبول کرنا

  • 13107
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1658

سوال

(363) پارلیمنٹ کی رکنیت اور کوئی سرکاری عہدہ قبول کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)پا ر لیمنٹ  کی رکنیت  اور مو جو دہ جمہو ری  نظا م  کے ما تحت  کوئی سر کا ری  عہدہ  قبو ل  کیا جا سکتا  ہے  یا نہیں ؟

(2)رکنیت  پا ر لیمنٹ  اور عام سر کا ری  عہدے جب  دونو ں  ایک ہی نظام  کے ما تحت  ہوں تو  ان میں  فرق  کر نا اور پہلے کفر  اور دوسرے  کو جائز  تصور  کر نا کیسا ہے ؟

(3)مروجہ  سیا سی  نظا م  کے تحت  اگر انتخا با ت  کر اے  جا ئیں  تو کیا ووٹ ڈالا  جا سکتا ہے ؟

(4)جو حضرا ت  انتخا با ت  میں حصہ  لینے  اور ووٹ  ڈا لنے  کو کفر  گردا نتے  ہیں  ان کے متعلق  آپ  کی  کیا را ئے  ہے ؟

(5)موجو د ہ صورت حا ل میں بعض  احباب ۔اخف الضررين يا اهون البليتين’’کو قبول  کر نے کا کو ئی تصور شرعاً مو جو د ہے ؟ خا ص طو ر پر ایسے حا لا ت  میں جب  اس کے سوا  کو چارہ ہی نہ  ہو اور اسے  وقتی  طو ر  چند شرعی  مصالح  کا لحا ظ  کر تے ہو ئے  قبو ل  کر لیا  جا ئے ؟

(6)یہ بھی بتا ئیے  کہ اگر الشیخ  عبد الر حمن  عبد الخا لق  کی اسی  مو ضو ع  پر کتا ب  کا اردو تر جمہ (جو تیار  کر لیا  گیا ہے) چھپو ا  دیا  جا ئے تو لیا مفید  ہو گا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)جن مما لک  کے دسا تیر  میں شریعت  کی با لا دستی  کا دعویٰ  موجو د ہو وہاں  پا ر لیمنٹ  کی رکنیت  اور مروجہ  نظا م کے ما تحت  سر کا ری  عہدہ اس غر ض  سے قبو ل کر لینے  میں کو ئی حر ج  نہیں  کہ خیر  کی طرف  کوئی قدم  بڑھا  یا جا سکے  تا ہم  یہ واضح  رہے  کہ اس صورت  میں اول  اپنی  شخصیت کا نا قدانہ جا ئز ہ اور محا سبہ  پیش نظر  رہے  کیو نکہ  مصلحت  کا تقاضا  بڑی  اہمیت  رکھتا  ہے بعض  لو گ  اثر اندا ز  ہو نے  کی زیا دہ   اہلیت  رکھتے ہیں  جبکہ  بعض  دوسرے   اثر  پذیر  ہو نے  کی بہر صورت  مقصد  امر  بالمعروف  ونھی عن المنکر  رہے  ۔

ٹھیک  ورنہ  اقتدار کا مطا لبہ (فر ما ن  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق ) (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من سال الامارۃ وکل الیہ (7147)و(7146)

اللہ تعا لیٰ  کی مدد  سے محرومی  کا با عث  ہو نے  کی وجہ سے بے بر کتی  پر منتج  ہو تا ہے ۔

دوسری  با ت  مرو جہ  نظا مو ں  کے اعتبا ر  سے یہ ہے کہ ان تمام  وضعی  نظامو ں  کی اسا س  حصو ل  اقتدا ر ہے اور ان  نظا مو ں  کے تا نے بانے  اسی جا ل  کے لیے  بنے  گئے  ہیں اس  لیے  جب  تک  خیر  کے رستے  کھلے  پائے  کا ر  اصلا ح  میں شر یک  رہے ور نہ  خو د فتنہ سے بچا نے  کی را ہ  اختیا ر  کر ے ۔

(2)پا ر لیمنٹ  کی رکنیت  اور دیگر  سر کا ری  عہدوں  میں بنیا دی  طو ر  پر کوئی  فرق  نہیں  پا ر لمنٹ  کا زیا دہ  تر  تعلق  تشکیل  حکو مت  سے ہو تا ہے  تو سر کا ری  عہدوں  کا حکو مت  کے ساتھ  تعا ون  سے  بعض  اعتبا ر  سے  پارلیمنٹ  کی رکنیت  زیا دہ  اہمیت  رکھتی  ہے تو دوسرے  اعتبا ر ات  سے کوئی  سر کا ری  عہدہ  بہر  صورت  اس کا تعلق  اشخا ص  کی  صلا حیت  اور  مو اقع  کی منا سبت  سے ہے اور اس کا فیصلہ  اسی چیز  کے مد نظر ہو نا چا ہیے  کا فرانہ یا ظا لما نہ  نظا م  میں شر کت  یا تعاون  دو نو ں  میں کو ئی  نما یا ں  فرق  نہیں  ہے  اصل  مقصد  خیر  اور اس کے حصول  کے موا قع  کی  اہمیت  ہے اسلا م  میں وسا ئل  مقاصد  کے تا بع  ہو تے ہیں  اس سلسلہ  میں شرعی  مقصد  کے لیے  حیلے  کا جو از  اور  غیر  شر عی  مقصد  کے لیے  حیلوں  کی مذمت  میں "  اعلا م  المو قعین "  کا مطا لعہ  مفید  ہو گا ۔

(3)مصا لح  دینیہ  کی بنا ء  پر اسلا م  اور مسلما نو ں  کی ہمدردی  میں قر یب  تر ین  پا ر ٹی  یا اشخا ص  کو ووٹ  ڈا لنا  منا سب  سمجھتے ہیں  لیکن  اس شعو ر  کے ساتھ  کہ ووٹ  اور بیعت  کا آپس  میں کو ئی  تعلق  نہیں جیسا کہ  ہم  تمہیدی  نکا ت  میں یہ واضح  کر  چکے  ہیں  کہ لا دینی  نظا مو ں  کی بعض  جزئیات  کو اسلا می  شعا رات  کے مما ثل  قرار  دینا  کج  سیا ست  سے نا بلد  ہیں تا ہم  ہماری گزا رشا ت  کے مطا بق  ووٹ  ڈا لنا  ہو یا  امیدا واری  کا مسئلہ  اس کااصل  تعلق  اسلا م  کے لیے  جدو جہد کر نے  سے ہے  لیکن  یہ بھی  واضح  رہے  کہ یہ  خیا ل  با لکل  غلط  ہے  کہ لا دینی  نظامو ں  کے  ذریعے  نفا د  شریعت  کا مقصد  حا صل  ہو سکتا  ہے بلکہ  ایسے  ادارو ں  میں شا مل  ہو کر  زیادہ  سے زیا دہ   برا ئی  کے خلا ف  دفا ع  کیا جا سکتا ہے  یا خیر  کے کچھ  راستے تلا ش  کئے  یا کھو لے  جا سکتے  ہیں ۔

البتہ  انتخا ب  کے سلسلے میں  ایک با ت  کا تعلق  زیا دہ  تر تجر بہ  سے ہے  جو گزشتہ  تقر یباً پچا س  سا ل سے ہم  پا کستا ن  میں دیکھتے  چلے  آرہے  ہیں  کہ جمہو ری  انتخا ب  میں ووٹ  سے آگے  بڑھ  کر امیدواری  اور کا میا بی  کے  لیے  دیگر  سیاسی  جما عتوں  سے مقا بلہ  اور گٹھ  جو ڑ  کے لیے  مر وجہ  سیاسی  ہتھکنڈوں  کے حو الے  سے جو شخص  سیاسی  فر یب  اور جھوٹ  کو اختیا ر  نہ کر ے  اس کا اقتدار  میں آنا مشکل ہو تا ہے  اتفاقات  کی با ت  چھوڑیئے  عام  حا لا ت  میں اگر  وہ مکا ر  منا فقا نہ  ہتھکنڈے  اس یکسا  ولی  سیا ست  میں استعما ل  نہ ہو ں  تو یا  نا کا می  مقدر  بنتی  ہے یا  پھر کا میا ب  ہو نے والا " شو پیس " بن کر رہ جا تا ہے  ایسے  حا لا ت  میں  مقصد  خیر  کے لیے  نا جا ئز  ذرائع  استعما ل  کر نے  کا مسئلہ  سا منے   آتا ہے  اگر اس کا دروازہ  چو پٹ  کھول  دیا جا ئے  تو پھر  تقویٰ   و دین  کا اللہ ہی حا فظ  ہے !

لہذا ہما رے  نز دیک  اس میدا ن  میں اترنے  کی مشروط  اجا زت  دفا ع  دین  کے لیے  اسی قدر  ہے جتنی  جہا د   وقتا ل  میں دشمن  کے خلا ف  مکرو  فریب  کی ہو سکتی ہے  اس لیے  ہم انتخا با ت  میں شر کت  کی گنجا ئش  نفا ذ  شر یعت  کا مؤثر  ذریعہ  ہو نے  کی حیثیت  سے نہیں بلکہ شر  میں  کمی  کی غرض  سے دینی  دفا ع  کے ایک  حر بہ  کے طو ر  پر ہی  پا تے  ہیں ۔ کیو نکہ  جمہو ری  انتخا با ت  میں با لفرض  کا میا ب  ہو کر  زیا دہ  سے زیا دہ  چہرے  بد لے  جا سکتے ہیں  نظا م  میں تبد یلی   مشکل  ہو تی  ہے  پھر  یکسا ولی  سیا ست  تو ایک  کاروبا ر  ہے اس  میں  جو لو گ  آتے  ہیں  وہ  زیا دہ  تر نو دو لتیے  جا گیر دار  اور ایسے  صنعت  کا ر ہو تے  ہیں جن  کے پا س  سیا ست  با ز ی  کے لیے   اوقات  فا ر غ  ہو تے  ہیں وہ  اقتدار  کے لیے  غلط  طریقوں  سے  حا صل  کردہ  دولت  کا  بے  دریغ  استعما ل  کر کے  کر سیء  اقتدا ر  پر  اجما ن  ہو تے  ہیں پھر  اقتدار  کا حصہ  بنتے  ہیں  وہ جو ع  الکلب (کتے  سے منسوب  حرص کی بیما ری )  کی صورت  میں لو ٹ  ما ر  میں مبتلا  ہو جا تے  ہیں بلکہ  یہ سیا ست  تو ایک  کا رو با ر  ہے دوسرے  پیشوں  کی طرح  اس کے لیے  خا ندان  مخصوص  ہو تے ہیں  ایک  ہی خا ندان  کے افراد  مختلف  جما عتوں  سے وابستہ  ہو جا تے ہیں  کہ اگر  مخصوص  جما عت  اقتدار  میں  آئی  تو فلا ں  فرد  کے  ذریعہ  سیا سی  فا ئدہ  اٹھا ئیں  گے  اور اگر  دوسری  جما عت  کا میاب  ہو گئی  تو دوسرا  فرد  خا ندا نی  مفا دات  کے لیے  کا م  آئے  گا  یہ کھیل  اتنا  گھناؤ نا ہے کہ اس کی کو ئی  سنجیدہ  قو م  متحمل نہیں  ہو سکتی  ۔ یہا ں  اس کی طرف  اشارہ  ہی کا فی  ہے  ایسے  حا لا ت  میں  بہت  کم اللہ  کے بندے  نیت  رہ  کر  اپنی  سیر ت  و کردار  کا تحفظ  کر سکتے  ہیں لیکن  ایسے  معا شر ے   اور نظا م  کے زیر  نگیں  رہ  کر کبو تر  کی طرح  آنکھیں  بند  کر لینا  بھی  کو ئی نجا ت  کی را ہ  نہیں  ہے کیو نکہ اقتدار  کے سر چشموں  پر صرف  گندے  لو گ  ہی قابض  ہو کر نیکی  کی را ہیں  زیا دہ   سے زیا دہ  مسدود  کر تے  چلے  جا ئیں  گے  اور سارا  معا شرہ  انہی کے رحم و کر م  پر رہ جا ئے گا ۔

ہما رے نزدیک  اگر  شخص  ہجر ت  کے  موا قع  نہ پا ئے  اور دعوت  دین  یا دفا ع  دین  کی مسا عی  میں شر یک  و معا ن  بھی  نہ ہو  تو  یہ بھی  بے کا ری  کی  ایک  شکل  ہے بہر  صورت  مسلما ن  کو تا دم  حیات معاشرے کا عضو معطل بن کر رہنے کے بجا ئے کسی نہ کسی حد تک  اصلا ح میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے خواہ جتنا حضرت ابرا ہیم کی چتا پر پرندوں  نے چو نچوں سے پا نی کے قطرے گرا کر لیا تھا ۔(اسی چتا پر گرگٹ یا چھپکلی کے پھونک مار نے کی ہی سر شت ہی کی بنا ء پر اس کا قتل باعث ٹھہرا۔)

(4)جمہوری  انتخابات میں حصہ لینے کی بنا ء  پر کفر  کا فتویٰ لگا نا  منا سب نہیں کیوں کہ کسی نظام کے کلی یا جزوی طور پر کافرانہ یا لا دین ہونے کی بنا ء پر کفر طرز عمل صرف ہجرت  کا نہیں ہونا چاہیے  بلکہ اصل کا م جدوجہدہے جس طرح  رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نےمکہ مکرمہ میں تیرہ سال جدوجہد کی ہے ہجرت کی اجازت تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی مجبوری کی حالت میں ملی پھر ہجرت کو ئی فرار نہیں  بلکہ اصلاح کا ایک متبادل طریقہ کار ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ مکر مہ سے ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ مکہ مکر مہ فتح کیا ہے ۔

(5)اخف الضررین(اھوناالبلیتین)کے فقہی قواعد کا استعمال  عموماًان کی حیثیت  جا نے بغیر عام لو گ کر تے ہیں حا لانکہ  اصول فقہ اور فقہی قواعد کی اصطلاح  میں بڑا فرق ہے اصول فقہ  کتا و سنت سے مسائل کے استنبا ط کے لیے اجتہادی اصول ہیں تو قواعد فقہیہ استنباط مسائل کے وقت اجتہادی رویوں کو متوزان رکھنے کے کا م آتے ہیں ۔

"اھون البلیتین "کو ئی اصول فقہ (اجتہاد) میں سے نہیں بلکہ ایک فقہی قاعدہ ہے بہر صورت  اس قاعدہ کی روسے  مصالح اور مفاسد کا با ہمی  تقابل کر کے مصلحت کو تر جیح دینا اور مفسدہ سے بچنا درست ہے جب دین دار یا اسلا م پسندوں کا مقا بلہ دین بیزار یا سیکولرلو گو ں سے ہو تو اسوقت ووٹ نہ دینا صرف ووٹ کا ضیاع نہیں ہوتا بلکہ بالواسط بے دین لو گو ں کو فائدہ پہنچانا ہو تا ہے کیوں کہ مروجہ جمہوری  انتخابا ت  میں اصل معیا ر  ووٹوں  کی حقیقی کثرت نہیں  بلکہ مقابلہ میں ووٹوں کی اکثریت ہے لہذا نسبتاًبھلےآدمیوں کو ووٹ نہ دینا اسے مقابلہ میں کم تر بنا نے کا با عث  ہو تا ہے نتیجتاً برے لو گ اقتدار کے چشموں پر فا ئز ہو کر خیر کے راستے بالکل بند کر دیتے ہیں یہ پہلو اگر نظر میں رہے  تو مسئلہ واضح ہو جا تا ہے قرآن مجید کی "سورہ روم"کی ابتداءمیں روم(اہل کتاب عیسائی )اور فارس(مشرک )کی جنگ میں مسلمانوں کو پہلے روم)(عیسائیوں )کی شکست پررنجیدہ ہونے کی بناء پر اس طرح تسلی دی گئی ہے کہ چند ہی سالوں میں رومی (عیسا ئی )فارس (مجوسیوں)پرغا لب آئیں گے ۔

﴿وَيَومَئِذٍ يَفرَ‌حُ المُؤمِنونَ ﴿٤﴾... سورة الروم

"اس دن مومن خوش  ہوں گے ۔"حالا نکہ عیسائی اور مجو سی دونوں کا فر ہیں لیکن مشر کین کے بالمقا بل اہل کتا ب اسلام کے زیادہ قریب  ہیں اس لیے مسلمانوں کو نہ صرف اہل کتا ب کی  فتح کی بشار ت دی گئی  بلکہ  ان کا خوش ہو نا بھی پسندیدہ قرار  پا یا ۔

نوٹ:

زیر نظر سوال و جوا ب  کے با ر ے میں یہ گزارش  منا سب ہے کہ ایسے معا ملا ت کا تعلق اسلا م اور مسلما نوں کے مصا لح اور مفاسد سے ہے اور ایسے معا ملا ت  میں جو ردیے  اختیا ر کئے جا تے ہیں وہ بھی تدبیر کی قسم سے ہیں ان کے با رے میں کفر و شرک کا فتویٰ تشدد اور انتہا پسندی ہے البتہ  مکرویہ بات واضح رہے کہ وضعی نظام  ہا ئے سیاست کا اسلا م سے پیوند  لگا نا قطعاًدرست رویہ نہیں مسلما نو ں کے اندر غزوفکر ی طور  پر ان نظاموں  کی خرا بیوں  کو واضح کر نا  اور اسلا می نظام  کی خو بیا ں اجا گر  کرنا بڑاضروری ہے با لخصوص  تقابلی  مطا لعہ  کے وقت  وہ فرق ضرور ملحوظ رکھنے چاہئیں جن کی بنا ء پر لا دین  نظا مو ں کی بعض  جزئیات کے لیے  اسلا می نظام  کی بعض  جزئیا ت  سے تشدد جزئیات سے تشابہ کا مغا لط دینے کی کوششیں کی جا تی ہیں ۔

(6)آج میں یہ چیلنج  در پیش ہے کہ اسلا می اصول و ضوابط کے مطا بق دور حا ضر کے لیے اسلا م کا قابل  عمل سیاسی  نظا م دنیا  کے سا منے پیش کر یں  اور جب تک کو ئی ایسی صورت حا ل نہیں ہو تی  ایسی بحثوں کی اشاعت مفید ہے جو کتا ب وسنت  کی روشنی میں ہمارے تدبیری معاملا ت میں راہنمائی کر سکیں شیخ عبدالرحمن عبد الخالق کی محو لہ بالاکتاب جو اگر چہ زیر بحث  موضوع  پر جا مع تبصرہ کی حامل  نہیں بلکہ مروجہ لادینی نظاموں میں اشتراک کی  پر زور حما یت  کا ایک رخ ہی ہے تا ہم ایسی مباحث کا بہ دلائل مطالعہ غور  و فکر  کی راہیں ضرور کھو لتا  ہے اس طرح معا شرہ میں باشعور طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے ہماری رائے میں یہ کتا ب جس  طرح عربی میں شائع ہو ئی ہے اس کا اردو تر جمہ  بھی شائع ہو نا چا ہیے اس وضاحت کے ساتھ کہ کو یت کا جمہوری دور بھی جمہوریت کے تجربہ سے اتنا آشنا نہیں  جتنا پاکستا ن یا وہ ملک اس تجربہ  کی خو بیوں اور خرا بیوں  سے متعارف  ہو چکے ہیں  جو ایک عرصہ سامراج  کے زیر نگیں  رہے اور اب بھی انہیں سامرا جی  نظامو ں کی دلدل سے نکل کر اسلام  کی طرف پیش  رفت کر نا ہے ۔

﴿إِن تَنصُرُ‌وا اللَّهَ يَنصُر‌كُم... ﴿٧﴾... سورة محمد

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص633

محدث فتویٰ

تبصرے