السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مدت رضاعت سے پہلے ہی اگر عورت حاملہ ہو جائے تو کیا وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی رہے گی یا چھوڑ دے گی ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نارمل مدت رضاعت تو دو سال ہی ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...٢٣٣﴾... سورة البقرة
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی مدت دوسال مقرر کی گئی ہے۔ البتہ دوسال مکمل کرنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی دوسال سے زائد دودھ پلانے میں کوئی ممانعت ہے ،بچے کی مصلحت کودیکھتے ہوئے مدت میں کمی اور بیشی بھی کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ آیت میں مدت کی تحدید استحبابی ہے واجبی نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿فَإِن أَرادا فِصالًا عَن تَراضٍ مِنهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيهِما...٢٣٣﴾... سورة البقرة
اگر وہ دونوں (میاں بیوی)آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ باقی رہی حمل کی بات تو حمل ٹھہرنے سے دودھ چھڑانا ضروری نہیں ہے۔اگر حمل کی وجہ سے عورت کمزوری محسوس کر رہی ہے یا بچے کی صحت کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے(جیسا کہ بعض عورتوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے) تو اسے دودھ چھڑا دیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو حمل کی موجودگی میں بھی دودھ پلانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |