سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(311) قبروں کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے

  • 13032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2514

سوال

(311) قبروں کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی اس بیماری میں ( جس سے ا چھے ہوکر نہیں اٹھے) یوں فرمایا: اللہ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء  علیہ السلام  کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔(1)(صحیح البخاری :1/601) کتاب الجنائز)

اب آپ سے مسئلہ یہ  پوچھنا ہے کہ یہودیوں نے تو اپنے انبیاء  علیہ السلام  کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا مگر نصاریٰ نے کیسے اپن نبی یعنی حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیا؟کیونکہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کے ماننے والوں کو کہتے ہیں۔ایک قادیانی نے مجھ سے یہ سوال کیا ہے اور اس سلسلہ میں میں بہت پریشان ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصوص صریحہ کے مطابق حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  تو زندہ آسمان پر ہیں۔قرب قیامت میں ان کانزول ہوگا۔(2) تو پھر دنیا میں ان کی قبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا مرزا قادیانی اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔حدیث ہذا میں جو کچھ بیان ہوا مجمل ہے۔صحیح مسلم میں جندب کے طریق میں مفصل ہے:

« كانوا يتخذون قبور انبيائهم وصالحيهم مساجد » (3)

 یعنی'' یہود ونصاریٰ نے اپنے انبیاء  علیہ السلام  اور اپنے نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔''

مقصود یہ ہے کہ یہود نے انبیاء  علیہ السلام  کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔جب کہ نصاریٰ نے نیک لوگوں کی پوجا پاٹ کی۔دلیل اس امر کی یہ ہے کہ دیگر  روایات میں تذکرہ جب نصاریٰ کا ہواتو وہاں صرف نیکوکار کی تصریح ہے۔ انبیاء   علیہ السلام  کا زکر نہیں ۔حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا بیان ہے کہ ام سلمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سرزمین حبشہ لے ایک کنیسہ کا زکر کیا ہے۔وہ دیکھ کر آئی تھی۔اسے ماریہ کہا جاتا ہے۔انہوں نے ان تصویروں کا زکر کیا جنھیں وہ دیکھ کر آئی تھیں تو سن کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:

’’اُولئك قوم اذا مات فيهم العبد الصالح او الرجل الصالح بنوا علي قبره مسجدا  وصوروا فيه تلك الصور اولئك شرار الخلق عندا لله » (4) (بخاري باب الصلاة في البيعة)

یعنی'' یہ وہ لوگ ہیں   جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے۔اور اس میں یہ تصویریں بناتے۔اللہ کے ہاں یہ مخلوق میں بدترین ہیں۔''

اور جب انفرادی طور پر بہبود کا تذکرہ ہوا تو فرمایا:

«قاتل الله اليهود اتخذوا قبور انبيائهم مساجد »(5)

یعنی '' اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے انھوں نے اپنے انبیاء  علیہ السلام  کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔''

یہاں صرف انبیاء  علیہ السلام  کا زکر ہے نیکو کاروں کا نہیں۔

یہ بھی احتمال ہے کہ یہود کے ساتھ نصاریٰ کا زکر اس بناء پر ہو کہ نصاریٰ تو انبیاء یہود کو برحق تسلیم کرتے تھے جبکہ یہود حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کو نبی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔گویا انبیاء  علیہ السلام  یہود دونوں گروہوں کے نذدیک مکرم ٹھرے۔اسی بناء پر دونوں ان کی عبادت میں شریک ہوگئے اور یہ بھی ممکن ہے یہاں حواری اور حضرت مریم  علیہ السلام  کو غیر مرسل قرار دیا گیا ہو اور یہ  بھی احتمال ہے کہ انبیاء س مراد بذات خودانبیاء  علیہ السلام  اور ان کے کبار متبعین ہی ہوں۔(فتح الباری 1/533)


1۔ صحیح مسلم کتاب المساجد رقم (530)

2۔ صحیح البخاری کتاب المظالم باب کسر الصلیب وقتل الخنزیر (2476) (3448) مسلم (2937)

3۔ صحیح مسلم کتاب المساجد باب النھی عن بناء المسجد علی القبور (532)

4۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ مسلم(٥٢٨)

5۔صحيح مسلم كتاب المساجد رقم (530)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص600

محدث فتویٰ

تبصرے