السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خا تو ن جب حا ملہ ہو ئی تو اس کی سا س نندوں کا اصرار تھا کہ وہ تیسرے مہینے میں تعو یز پہن لے تا کہ کسی بھی قسم کے وا ر سے بچاؤ ہو جا ئے نیز ان سب کے ہا ں ہی تقر یباً بچے فو ت ہو ئے تعو یز پہننے پر ہی زندہ بچے ۔
خا تو ن نے تعو یز پہننے سے انکا ر کر دیا کیو نکہ وہ اپنے رب پر متو کل تھی ویسے وہ نظر بد کی دعا ئیں آیۃ الکرسی چا رو ں قل وغیرہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتی ۔اب اس کے ہاں بیٹا ہوا لیکن اللہ کی قدر ت کہ وہ پیدائش سے دو دن قبل و فا ت پا چکا تھا ۔ اب سا س اور نندوں کو موقع ہاتھ آگیا کہ ہم کہتی رہیں لیکن تم نے تعو یز نہیں پہنا اب نتیجہ دیکھ لیا اب بھی وقتاً فوقتاً اسے آما دہ کر نے کی کو شش کی جا تی ہے اب وہ خاتون متذ بذب ہے کہ اسے کیا کر نا چا ہیے پہلے بھی اسے اپنے رب پر بھرو سہ تھا وہ بیٹے کی وفا ت کو رب کی طرف سے آز ما ئش سمجھ کر اس پر صا بر ہے اب بھی اسے رب پر بھرو سہ ہے لیکن ذہن کسی وقت شدید پر یشان ہو جا تا ہے اور دل میں وسوسے آنے لگتے ہیں اسے کیا کرنا چا ہیے ؟ کیا رب سے استقا مت کی دعا ما نگنا چا ہیے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایما نیات کے اجزا ء میں سے اہم تر ین چیز یہ ہے کہ آدمی کا یہ عقیدہ ہو ۔
«ما شاء الله كان وما لم يشا لم يكن»
یعنی " کا ئنا ت میں وہی کچھ ہو تا ہے جو اللہ کی مشیت ہواور جو وہ نہ چاہے اس کا وجو د نا ممکن اور محا ل ہے بنیا د طور پر ایک مو من کا ایمان ہو نا چا ہیے کہ دم جھا ڑ وغیرہ میں مؤثر صرف خالق حقیقی ہے اس کے سوا کو ئی نہیں یہا ں تک کہ انبیا ء علیہ السلام سے جو معجزا ت ظہو ر پذیر ہو ئے یا نیک صا لحین سے جن کرا ما ت کا صد و ر ہے ان میں تا ثیر پیدا کر نے والا صرف اللہ ہے اس امر کی واضح مثا ل قرآن میں قصہ مو سی علیہ السلام ہے جب ان کے سا منے لا ٹھی کا سا نپ بنا تو گھبر ا کر دو ڑ نے لگے اگر وہ مؤثر خو د ہو تے تو خو ف زدہ ہو نے اور بھا گنے کی چندا ں ضرورت نہ تھی کچھ اسی طرح کا معا ملہ تعو یز اور دم جھا ڑ ا کا ہے ان پر تو کل اور بھرو سہ کے بجا ئے نفع و نقصا ن میں اعتما د صرف ذا ت با ر ی تعا لیٰ پر ہو نا چا ہیے ۔ قرآن مجید میں ہے ۔
﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يَمسَسكَ بِخَيرٍ فَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿١٧﴾... سورة الانعام
"اور اگر اللہ کو ئی سختی پہنچا ئے تو اس کے سوا اس کو کو ئی دور کر نے والا نہیں اور ا گر (نعمت اور را حت عطا فر ما ئے ) تو ( کو ئی اس کو روکنے والا نہیں ) وہ ہر چیز پر قا در ہے ۔’’
دوسری جگہ فر ما یا :
﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ ۚ يُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ۚ وَهُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿١٠٧﴾... سورة يونس
"اور اگر اللہ تم کو کو ئی تکلیف پہنچا ئے تو اس کے سوا اس کا کو ئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلا ئی کر نی چا ہیے تو اس کے فضل کو کوئی رو کنے والا نہیں وہ اپنے بندو ں میں سے جسے چا ہتا ہے فا ئدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہر با ن ہے۔"
اور جا دو کر نے وا لو ں کے با ر ے میں فر ما یا ۔
﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ ۖ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ ۚ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر ۖ فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ ۚ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّـهِ ۚ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم ۚ وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الـٔاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ ۚ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ۚ لَو كانوا يَعلَمونَ ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة
یہ مذکو رہ چیزیں تو صرف ایک بذریعہ ہیں جن کے جوا ز اور عد م جوا ز کا انحصا ر صرف نبو ت کی رو شنی پر وقوف ہے مسنون دم کے لیے اہل علم نے بعض شرطیں بیان کی ہیں ۔
(ان تكون بكلام الله تعاليٰ او باسمائه وصفاته وباللسان العربي اوما يعرف معناه من غيره وان يعتقد ان الرقية غير موثرة بنفسها بل بتقدير الله عزوجل ’’)(عون المعبو د 4/21)
یعنی"دم اللہ کے کلا م یا اس کے اسما ء و صفا ت اور عر بی زبا ن میں ہو دم معرو ف المعنی ہو اور یہ اعتقاد دکھا جا ئے کہ دم جھا ڑا بذاتہ مؤثر نہیں بلکہ اس کی تا ثیر اللہ عزوجل کی قضا ء قدر سے ہے ۔
یہ غير متنازع فيه شئي کی تا ثیر کا حا ل ہے جب کہ تعویز ویسے ہی متنا زع فیہ شی ء ہے تو اس میں اس حد تک غلو کیسے جا ئز ہو گا "بچہ اس لیے مرا ہے کہ ما ں نے تعويز با ند ھنے سے انکا ر کر دیا تھا اس اعتقاد کا حا مل انسا ن بلا شبہ مشر ک ہے اسے فوراً اپنے غلط عقیدہ سے تائب ہو نا چا ہیے ،(واللہ ولی التوفیق )
مو صوفہ کو قرآن مجید کی تلا وت اور ذکر و اذکا ر کی صورت میں اپنے رب سے مزید تعلق گہرا کرنا چا ہیے تا کہ شیطا نی وسوسوں سے نجا ت حاصل ہو رب کر یم کا وعدہ ہے جو آسا نی میں اسے یا د کر تا ہے وہ ایا م ابتلا ء میں اس کا دست و بازو بن جا تا ہے دعا:
«اللهم اجرني.......»(١)اور« الله الله ربي لا اشرك به شيئا »(2)
کا ورد کثر ت سے کر یں "ان شا ء اللہ" مشکل آسان ہو گی لیکن قبو لیت دعا کی بنیا دی شر ط اکل حلا ل اور کبا ئر سے اجتنا ب ہے ۔
1۔ مکمل دعاء:انا اللہ وانا الیه راجعون .اللهم اجرنی في مصيبتي واخلف لي خيرا منها ...صحيح مسلم كتاب الجنائز باب ما يقال عندالمصيبة (٢١.٢٧) عن ام سلمة رضي الله عنها قالت فلما توفي ابو سلمة قلت كما امرني رسول الله صلي الله عليه وسلم فاخلف الله لي خير امنه رسول الله صلي الله عليه وسلم
2۔ صححه الباني صحيح ابي دائود كتاب الوتر باب الاستغفار (١٥٢٥) صحيح ابن ماجه كتابه الدعاء باب الدعا عند الكرب (٣٨٨٢) والصحيحة (٢٧٥٥) واحمد (٦/٣٦٩)عن اسماء بنت عميس
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب