سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(462) جگہ کے اعتبار سے حج کے مواقیت

  • 1300
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2363

سوال

(462) جگہ کے اعتبار سے حج کے مواقیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جگہ کے اعتبار سے حج کے مواقیت کون سے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جگہ کے اعتبار سے مواقیت حج پانچ ہیں: ذوالحلیفہ، جحفہ، یلملم، قرن المنازل  اور ذات عرق، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1۔         ذوالحلیفہ: وہ جگہ ہے جسے آج کل ابیار علی کہا جاتا ہے۔ یہ مدینہ کے قریب ہے اور مکہ سے قریباً دس مراحل دور ہے۔ یہ مکہ سے سب سے دور والا میقات ہے۔ یہ میقات اہل مدینہ اور اس کے راستے سے گزرنے والے دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔

2۔        جحفہ: یہ شام سے مکہ کے راستے پر واقع ایک قدیم گاؤں ہے، اس کے اور مکہ کے مابین قریباً تین مراحل کا فاصلہ ہے۔ یہ گاؤں اب بے آباد ہو چکا ہے، اس لیے لوگ اس کے بجائے اب رابغ سے احرام باندھتے ہیں۔

3۔        یلملم: یمن سے مکہ کے راستے پر ایک پہاڑ یا جگہ کا نام ہے۔ آج کل اسے سعدیہ کہا جاتا ہے، اس کے اور مکہ کے درمیان قریباً دو مرحلوں کا فاصلہ ہے۔

4۔        قرن المنازل: نجد سے مکہ کے راستہ پر ایک پہاڑ کا نام ہے، اسے آج کل ’’السیل الکبیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے اور مکہ کے درمیان قریباً دو مرحلوں کا فاصلہ ہے۔

5۔        ذات عرق: عراق سے مکہ کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے، اس کے اور مکہ کے درمیان بھی قریباً دو مرحلوں کی مسافت ہے۔

ان میں سے پہلے چار یعنی ذوالحلیفہ، جحفہ، یلملم اور قرن المنازل  کا تعین تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا، جیسا کہ اہل سنن نے اسے بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کیا ہے، ذات عرق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اہل کوفہ و بصرہ کے لیے اس وقت میقات قرار دیا جب انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کیا: ’’امیرالمومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل نجد کے لیے قرن کو میقات مقرر فرمایا ہے اور یہ ہمارے راستے سے بہت دور ہے۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ’’تم یہ دیکھو کہ اس کے بالمقابل تمہارے راستے میں کون سا مقام ہے۔‘‘

بہرحال اگر اس کا تعین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو تو معاملہ بالکل واضح ہے اور اگر آپ سے یہ ثابت نہ ہو تو پھر یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کی سنت سے تو ثابت ہے ہی اور آپ ان خلفائے راشدین مہدیین سے ہیں، جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جن کی رائے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ حکم نازل فرمایا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کا تعین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہی نے فرمایا تھا، تو پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی یہ رائے فرمان نبوی کے مطابق ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ انسان جب کسی میقات کے پاس سے گزرے، تو وہاں سے احرام باندھنا لازم ہے اور جب اس کے بالمقابل کسی دوسری جگہ سے گزر رہا ہو تو وہ ایسے ہے جیسے اسی مقام کے پاس سے وہ گزر رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے اس اثر کا ہمارے آج کے دور میں بہت فائدہ ہے کیونکہ اگر کوئی انسان حج یا عمرے کے ارادہ سے بذریعہ ہوائی جہاز مکہ مکرمہ میں ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ جب میقات کے اوپر سے گزرے تو وہاں سے احرام باندھ لے، اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ احرام کو جدہ پہنچنے تک مؤخر کرے جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں کیونکہ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ آپ میقات کے بالمقابل خشکی میں ہوں یا ہوا میں یا سمندر میں۔ یہی وجہ ہے کہ بحریجہازوں سے آنے والے لوگ جب یلملم یا رابغ کے بالمقابل آتے ہیں، تو وہ احرام باندھ لیتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ414

محدث فتویٰ

تبصرے