سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) سود کے مال سے تعمیر مکان کے ترکہ میں ورثاء کا حصہ

  • 130
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2018

سوال

(201) سود کے مال سے تعمیر مکان کے ترکہ میں ورثاء کا حصہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنے پراویڈینٹ فنڈ، انشورنس، اور ہاوس بلڈنگ سے قرض لیکر جس میں سود بھی شامل ہوتا ہے اپنا مکان تعمیر کیا اب جبکہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے تو اسکی اولاد کیلئے اس کے ترکہ کا کیا حکم ہے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس نے بھی سودی قرض ليا اورپھر اس قرضے سے جائداد خريدی تو اس كے فوت ہونے كےبعد يہ جائداد بھی اس كے تركہ میں شامل ہوگی۔ اور وہ وراثت بنے گی ، اور مرنے والے شخص كوسودی لين دين كرنے كی بنا پر گناہ ہوگا ۔

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی كہتے ہيں:

( حرام كمائی كامال صرف كمائی كرنے والے پر حرام ہے مثلا سود ، لھذا جب سودی لين دين كرنے والا شخص فوت ہوجائے تو ورثاء كے ليے اس كا مال حلال ہے ، ليكن جواشياء بعينہ حرام ہيں مثلا شراب وغيرہ تو يہ نقل كرنے والے اور جس كی طرف منتقل ہو اس پر بھی حرام ہے ، اور اسی طرح جوچيز حرام ہو اور اس ميں حرمت باقی رہے مثلا غصب اور چوری كردہ اشياء ، تو اگر كسی انسان نے كوئی چيز چوری كی اور مرگيا تووہ چيز وارثوں كے ليے حلال نہيں ہوگی اور پھر اگر اس كے مالك كا علم ہو تووہ چيز اسے واپس كی جائے گی وگرنہ مالك كی جانب سے صدقہ كردی جائے گی ) انتھی ۔ لقاءات الباب المفتوح سے ليا گيا ( 1 / 304 )

اور مستقل فتوی كميٹی نے سودی قرضہ سے گھربنانے والے شخص كےبارہ ميں فتوی ديا كہ اس پر توبہ واستغفار كرنا لازم ہے ، ليكن عمارت منہدم كرنا لازم نہيں بلكہ رہائش وغيرہ كركے نفع حاصل كرنا جائز ہے۔ديكھيں [ARB]فتاوی اللجنة الدائمة [/RB]( 13 / 411 )

اسی بارے شیخ صالح المنجد ایک سوال کا جواب دیتے ہوءے لکھتے ہیں:

بلا شبہ موجودہ وقت اور خاص كرآپ كے ملك ميں سياحت كے شعبہ ميں كام كرنا بہت سی شرعی مخالفات كولازم كرتا ہے جس ميں مرد وعورت كے اختلاط اور بے پردگی كی ديكھ بھال اور بعض اوقات تو شراب اور دوسری حرام اشياء بھی اس ميں شامل ہوتی ہيں ، اگرتومعاملہ ايسا ہے توپھر آپ كےوالد كا مال حرام ہے اور علماء كرام اسے مال مختلط كانام ديتے ہيں ۔

اور علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، ليکن اس سے بچنا اولی اورافضل ہے۔

اور آپ كےوالد كا ضروريات ممنوعات كومباح كرديتی ہيں، والے قاعدہ سے دليل لينا صحيح نہيں ، كيونكہ حلال كمانے كے بہت ذرائع اور وسائل ہيں اور فرمان باری تعالی ہے:

’’اور جوكوئی اللہ تعالی كا تقوی اختيار كرے اللہ تعالی اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزی وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہيں ہوتا‘‘

اور اگرانسان اپنے ليے يہ دروازہ كھول لے توضرورت كودليل بنا كر حرام كے ہردروازے ميں داخل ہوجائے گا ۔

آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ حرام خوری كا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر كچھ بھی نہ ہو پھر بھی حرام كھانے والےشخص كی دعا كبھی قبول نہيں ہوتی جيسا كہ صحيح مسلم ميں نبی صلی اللہ عليہ وسلم كی حديث ہے رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

بلاشبہ اللہ تعالی پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہی قبول فرماتا ہے ... ايك ايسے شخص كا ذكر كيا گيا جس نے بہت طويل اور لمبا سفر طے كيا اس كے بال بكھرے ہوئے اور پراگندہ حالت ميں وہ آسمان كی جانب ہاتھ بلند كيے يارب يارب كہے اور اس كا كھانا حرام كا اس كا پينا حرام كا اور اس كا لباس بھی حرام كا اوراس كی غذا ہی حرام خوری ہے تواس كی دعا كہاں قبول ہو ۔ صحيح مسلم ( 1015 )

اور آپ كے والد كا اس حرام ملازمت سے مال كمانے كوعلماء كرام حرام كمائی( مالامحرمالكسبہ ) كا نام ديتےہيں یعنی اس نے حرام طريقے سے مال كمايا ہے ، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ مال صرف كمائی كرنے والے پر حرام ہے ۔

ليكن جوشخص يہ مال كسی مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں ۔

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالی كہتے ہيں :

بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائی كا گناہ صرف كمائی كرنے والے پرہے نہ كہ كمائی كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائی والے شخص سے حاصل كيا، بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ ۔

يہ قول قوی اور وجيہ ہے اس كی دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودی سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودی عورت كی جانب سے ہديہ كردہ بكری كا گوشت كھايا ، اور يہودی كی دعوت قبول كی ۔

يہ معلوم ہونا چاہيے كی اكثر يہودی سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كی تقويت رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھی ہوتی ہے :

رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضی اللہ تعالی عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كی جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے )۔ديكھيں القول المفيد علی كتاب التوحيد ( 3 / 112 )

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھی كہنا ہے :

جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسی اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائی والے سے اصل كيا ہو . اس كی دلیل يہ ہے كہ رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كی دليل ہے كہ كمائی كرنے والے كےعلاوہ كسی اورپر يہ حرام نہيں۔تفسیر سورۃ البقرة ( 1 / 198 )

تواس بنا پر آپ اپنے والد كی وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كی استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولی اور بہتر اور اسی ميں ورع وتقوی ہے۔

واللہ تعالی اعلم ،مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں۔ احكام القرآن لابن العربی ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوی الفقھية الكبری للھیتمی ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 )

درج بالا فتاوی سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ

۱۔ حرام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حرام بنفسہ ہے یعنی جو اپنی ذات میں حرام ہو تو یہ مال وراثت کے طور پر منتقل نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کسی کے والد کی شراب کی فیکڑی تھی یادوسروں کی غصب کردہ زمین تھی یا چور ی وڈاکے کا مال تھاتو یہ مال وراثت نہیں بنے گا بلکہ اصل مالکان کو لوٹا یا جاے گا۔

۲۔ حرام کی دوسری قسم حرام لغیرہ ہے یعنی جو شیء بنفسہ حرام نہ ہو لیکن فاعل کے فعل کی وجہ سے حرام قرار پاے جیسا کہ مال تجارت یا بیع و شراء میں جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر یا سود یا انشورنس وغیرہ سے مال کمانا ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 2 کتاب الصلوۃ


تبصرے