سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(246) عورتوں کے لیے سونے کا استعمال

  • 12968
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1197

سوال

(246) عورتوں کے لیے سونے کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں کے لئے سونے کے استعمال کا کیا حکم ہے؟

’ ’ باب الخاتم الفصل الثاني (مشكواة المصابيح) عن اسماء بنت يزيد رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال:« انما امراة  تقلدت فلادة من ذهب قلدت في عنقها مثلها من النار يوم القيامة وايما امراة جعلت في اذنهاخرصا من ذهب جعل الله في اذنها مثله من  الناريو م القيامة »(المشكاة (4402) كتاب اللباس)(رواہ ابو داود والنسائی)

شیخ  الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ'' الاعتصام'' میں احکام  ومسائل کے تحت اس حدیث کے متعلق وضاحت فرمائیں۔

اگر یہ حدیث بالکل صحیح ہے تو کوئی عورت اپنے کانوں اور گلے میں آگ برداشت نہیں کرسکتی۔وضاحت کرکے امت مسلمہ کی خواتین کو آگ سے بچاہیے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے ۔آمین !


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت سوال میں روایت امام ابو دائود  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن میں '' باب ماجاء فی الذھب للنساء '' (ابو داود كتاب الزينة رقم الباب (٣٨) (٤٢٣٨) ضعفه اللباني ضعيف ابي دائود (٩١١) کے  تحت نقل کی ہے۔

٭ او ر امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن میں اس پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے۔'' الکراھیۃللنساء فی اظھار الحلی والذھب '' (النسائي(٥١٣٧-٥١٣٨) ضعفه اللباني ضعيف النسائي (٣٩١)

امام ابو دائود  رحمۃ اللہ علیہ  کا مقصود محض سونا پہننے یا نہ پہننے کے بارے میں وار رواایت کو جمع کرنا ہے۔

البتہ عنوان کے آغاذ میں جواز کی روایت کو لانے سے معلوم ہوتا ہے۔ کے ان کے نزدیک بھی ترجیح جواز کو  ہے۔بصورت دیگر حرمت کا عنوان بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔اور امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  نے مختلف روایات میں تطبیق وتوفیق کی صورت پیدا کی ہے۔اس عنوان سے بتانا یہ چاہتے ہیں کہ سونا یازیورات پہننا منع صرف اس صورت میں ہے  جب کہ عام لوگوں کے سامنے اظہار زینت مقصود ہو۔

٭ اس سے پہلے اما م دارمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی مسند میں اس طرح کاباب قائم کیا ہے۔

’ ’ باب كراهية اظهار الزينة ’’(سنن الدارمي (٢/٣٦٢(٢٦٤٥) وبتحقيق حسين سليم (٣/١٧٢٩)(ح:٢٦٨٧)

منع کی روایات میں توجیہات کے بارے میں اہل علم کی مختلف مسالک ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

1۔ایک  گروہ نے کہا منع کی تمام روایات معلول اور کمزورہیں۔ زیر نظر روایت کے بارے میں  ابن القطان نے کہا  اس حدیث کی علت یہ  ہے کہ اس میں اسماء بنت یزید سے راوی محمود بن عمرو مجہول الحال ہے۔اگرچہ ایک جماعت نے اس سے روایت کی ہے۔ا س کے باوجود بعض ائمہ کے ہاں بعض راویوں سے جہالت رفع نہیں ہوتی۔چنانچہ امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے داود بن یزید ثقفی کے ترجمہ میں ابو حاتم سے بیان کیا ہے کہ یہ مجہول ہے اس کے باوجود کہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس سے روایت کی ہے امام ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

’’ هذ القول لو وضع لك ان الرجل قد يكون مجهولا عند ابي حاتم ولو روي عنه جماعة ثقات يعني : انه مجهول الحال ’’

امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے ''المحلیٰ '' (المحلي لابن حزم (٩/٢٤١)میں اورامام '' الجرح والتعدیل '' ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ''المیزان'' میں ابوالمحاسن یوسف الحنقی نے ''المعتصر'' کے ص 361 میں روایت ہذا کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام منذری  رحمۃ اللہ علیہ  کا '' الترغیب والترھیب ''(١/٥٥٧)حديث الباب(٣١ ) وضعيف الترغيب للباني(١/٢٤٢)(ح:٤٧٣)میں اس کی سند کو جید کہنا محل نظر ہے۔

یاد رہے کہ اسماء بنت یزید بن السکن سے ایک دوسری  روایت بھی اسی مفہوم کی مروی ہے لیکن اس میں دو ر اوی لیث بن ابی سلیم  اوراس کے شیخ شہر بن حوشب دونوں ضعیف ہیں۔ملاحظہ ہو:المحلی لابن حزم (٩/٢٤١)ایک تیسری روایت بھی ان سے وارد ہے۔ اس میں بھی شھر بن حوشب ضعیف ہے (٩/٢٤١)پھر مسند احمد کی ایک چوتھی روایت میں بھی شھر بن حوشب ہے (٦/٤٥٣-٤٥٤) فيه شهر بن حوشب (٦/٤٥٧)(٢٧٤٥٦) فيه محمود بن عمرو.

2۔منع کی روایات کاتعلق اسلام کے ابتدائی دور سے ہے پھر منسوخ ہوگئیں۔ ان کا استدلال ابو موسیٰ کی اس مرفوع روایت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:'' سونا اور  ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں پر حرام ہے۔''

ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ابن ماجہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی سنن میں اس کو علی اور عبداللہ بن عمرو سے مرفوع بیان کیاہے۔(عن علي (٣٥٩٥) وعن عبدالله بن عمرو (٣٥٩٧) امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دواورطریق بھی بیان کیے ہیں۔

'' حماد بن سلمة عن عبيد الله ابن عمر باسناده ’’

اس طرح سعید بن ابی عروبہ اورمعمر سے وہ دونوں ایوب  سختیانی سے وہ نافع سے باسنادہ  اس میں ریشم اور سونے کازکر ہے۔ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:هو اثر صحيح ’’کہ یہ اثر صحیح ہے۔(المحلي (١٧٧٧) (٩/٢٤٥) وقال:صحيح کیونکہ سعید بن ابی ہند ثقہ مشہورہے۔اس  سے بیان کرنے والا نافع اور موسیٰ بن میسرہ ہے۔بعد ازاں ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے جواز کے لئے سنن ابو داؤد میں عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی مرفوع روایت(سنن ابي دائود كتاب المناسك باب ما يلبس المحرم (١٨٢٧) قال الباني ’’ حسن صحيح’’(جس میں حالت احرام میں عورتوں کو  زیورات استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔) اسے استدلال کیا ہے پھر

ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تمام زیورات کا عام تذکرہ فرمایا ہے۔اگر عورتوں پر سونا حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وضاحت فرمادیتے جب منع نہیں فرمایا تو معلوم ہوا حلال ہے۔انہوں نے کہا کہ سلف کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے۔

ابو بکرالجصاص نے ''احکام القرآن'' میں قرآنی آیت :

﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ‌ مُبينٍ ﴿١٨﴾... سورة الزخرف

کی  تفسیر میں کچھ وعیدی نصوص زکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ جن روایات میں عورتوں کے لئے سونے کی اباحت ہے وہ زیادہ واضح اورعدم جواز کی روایت سے زیادہ نمایاں اور مشہور ہیں۔اورآیت مذکورہ بالا بھی اس کے جواز پر دلالت کررہی ہے۔ پھر امت کا عمل بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے سے ہمارے زمانے (یعنی چوتھی صدی کے آخری دور) تک یہی رہا ہے بغیر اس کے کہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔

امام منذری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ''مختصر'' میں مذکورہ حدیث کے بارے میں کہا ہے بعض اہل علم نے اس کو (اسلام کے ) ابتدائی دور پر محمول کیا ہے۔پھر وعید منسوخ ہوگئی۔اور عورتوں کے لئے سونے کے زیورات مباح ہوگئے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس فرمان کی بناء پر  کہ:

«هذان حرام علي ذكور امتي حل لانا ثها»

اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وعید کاتعلق اس سے ہے۔جو زکواۃادا نہ کرے۔امام خطابی  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہی دو جوابات دیئے ہیں۔ملاحظہ ہو(مختصر ومعالم وتھذیب 126۔125)(معالم السنن (٤/٤٣٧) ابن شاہین نے بھی اپنی کتاب ''ناسخ'' (رقم (٥٧٤)الي ٥٧٧) بتحقيق كريمه بنت علي العلمية) میں نسخ کا قائل ہے۔سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی '' المجتبیٰ''(شرح الحديث (٥١٤٣)(٨ /١٥٧) کے حاشیہ پر اس کو برقرار رکھا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص556

محدث فتویٰ

تبصرے