السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مورخہ 30 شوال کے ''الاعتصام'' کے ص 16 پر(سنن ابی داؤد بروایت ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) حدیث مبارک کا ترجمہ شائع کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
'' جو شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹادیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔''
کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ وضاحت طلب مسئلہ یہ ہے کہ دور حاضر میں دنیا کا کوئی حصہ شاید ایسا ہوگا۔جہاں مسلمان نہ ہوں۔اتنی بڑی مسلمانوں کی تعداد میں سے یہ بات قابل یقین ہے کہ کوئی بھی لمحہ ایسا نہ ہوگا جب بے شمار دفعہ درودشریف نہ پڑھا جاتا ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قبر میں زندہ ہی رہے مگر اگر زندہ بھی ہوں تو بشری تقاضے کے تحت ساری دنیا کے مسلمانوں کے درود وسلام کاجواب کس انداز میں دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ تو خدا ہی کا خاصہ ہے۔ کہ وہ تمام مخلوق کے سوال جواب کا حل کرسکتا ہے مگر انسانی فطرت کےلئے بعد از قیاس ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث ہذا تصیح یا تحسین کی محتمل ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ''الاذکار'' اور ''ریاض الصالحین'' میں اس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔(1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں تصریح کی ہے کہ ''بان رواتہ ثقات'' یعنی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اگرچہ بعض محدثین نے اس میں ایک راوی ابوصخر حمید بن زیاد میں کلام کیا ہے۔لیکن فی الجملہ وہ قابل حجت ہے۔حدیث کی صحت کی صورت میں موجود اشکال کا حل یوں ہے کہ امور آخرت کا ادراک عقل سے ممکن نہیں ہے برذخی احوال آخرت کے احوال سے زیادہ مشابہہ ہیں۔لہذا ظاہر حدیث پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔اس کا علم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کر دینا چاہیے۔برزخی معاملہ کو جو کچھ ہم دنیا میں مشاہدہ کرتے ہیں۔اس پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ یہ غائب کو شاہد پر قیاس کرنے کے مترادف ہے۔جوحد درجہ جہالت اورظلم وزیادتی وگمراہی وکند ذہنی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح 1/690)
1۔(١٥٢) صححه النووي وابن القيم وحمزه وحسنه الالباني صحيح ابي داؤد كتاب المناسك با زيارة القبور (٢١٤١) احمد (٢/٥٢٧) (10759) بتحقيق حمزة رياض الصالحين برقم (١٤-٢) سنن الكبريٰ -٥/٢٤٥) للبهيقي عون المعبود شرح الحديث هذا وقال ابن حجر رواته ثقات كما في عون...
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب