السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اما م احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے''اعفاء لحیہ'' کا جو مفہوم لیا ہے جیسا کہ آگے بروایت ابن ھانی آرہا ہے۔ کیا وہ اس حق پر ہیں یا حدیث کے سمجھنے میں ان سے تسامح ہوگیا ہے۔ جب کہ انہوں نے مسند میں "" اعفاء لحیہ'' سے متعلق پانچ چھ حدیثیں روایت کی ہیں۔ان کے شاگر ابن ھانی نیسا پوری کہتے ہیں:
’سال ابا عبد الله عن الرجل ياخذ من عارضيه؟ قال: ياخذ من اللحية ما فضل عن القبضة قلت: فحديث النبي صلي الله عليه وسلم احفوا الشوارب واعفوا اللحي قال :ياخذ من طولها ومن تحت حلقه ورايت ابا عبد الله ياخذ من عارضيه ومن تحت حلقه ’’
( مسائل امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ لابن ھانی النیشا پوری :2/151-152) الطبع المکتب الاسلامی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
داڑھی کی بابت مختار بات یہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
'' والمختار تركها علي حالها وان لا يتعرض لها بتقصير ولا غيره’’(فتح الباری :10/35)
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جو وضاحت فرمائی ہے۔یہ بعض اقوال وآثار اورحدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ وغیرہ پر مبنی ہے حتی کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (راوی حدیث توفیر لحبۃ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل ''اخذ لحیۃ'' کے بارے میں تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ) رقم طراز ہیں:
’’ الذي يظهر ان ابن عمر كان لا يخص هذا التخصيص بالنسك بل كان يحمل الامر بالاعفاء علي غير الحالة التي تشوه فيها الصورة بافراط طول شعر اللحية او عرضه ’’(فتح الباری :10 /350)
یعنی'' جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے کے فعل کو حج اور عمرہ کے ساتھ مخصوص نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ہاں ''اعفاء لحیہ'' کا عمل اس حالت پرمحمول تھا کہ اس سے بالوں کےطول عرض میں بڑھنے سے قباحت پیدا نہ ہو۔''
صورت مسئولہ میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح بھی ایسی ہی حالت پر محمول ہوگی تاکہ رواۃ حدیث کے فہم میں مطابقت پیدا ہوسکے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب