السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث'' میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اختلاف بڑی رحمت '' ہے۔
'' رواه البيهقي في المدخل عن ابن عباس رضي الله عنها ورواه الدارقطني والدارمي وابن عساكر عن ابن عمر وصححه الحاكم)
مذكوره بالا حديث صحيح يا ضعیف ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشار الیہ روایت سخت ضعیف من گھڑت ہے ۔اس میں نعیم بن حماد راوی ضعیف ہے اور عبد الرحیم بن زید جھوٹا ہے۔اور ''المیزان'' میں ہے: ''ھذا الحدیث باطل''
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ 7501 رقم 60)
اسی طرح''اختلاف امتی رحمۃ'' بے اصل روایت ہے۔علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت محدثین کے ہاں معروف نہیں۔مجھے اس کی صحیح ضعیف اور من گھڑت سند کا علم نہیں ہوسکا۔شیخ زکریا الانصاری رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر بیضاوی پر اپنی تعلیقات میں اسی بات کو برقرار رکھا ہے۔(ق 92/2)ْ
پھر محققین اہل علم کے نزدیک اس کامعنی مستنکر ہے۔چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے (الاحکام فی اصول الاحکام 5/64) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ حدیث نہیں۔پھر فرماتے ہیں:
’’ وهذا من افسد قول يكون لانه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا و هذا ما لا يقوله مسلم لانه ليس الا اتفاق او اختلاف وليس الا رحمة اوسخط وقال في مكان آخر باطل مكذوب’’
(بحوالہ سلسلتہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للعلامہ الالبانی 1/70 رقم 57)
یعنی'' قول انتہائی ردی قسم کا ہے۔ اس لئے کہ اگر اختلاف باعث رحمت ہے تو اتفاق باعث ناراضگی ہوا کوئی مسلمان بھی اس بات کا قائل نہیں کہ امر واقع اس طرح ہو کیونکہ دوہی امر ہیں یا اتفاق ہے یا اختلاف ۔رحمت ہے یا ناراضگی ۔اوردوسرے مقام پر فرماتے ہیں۔یہ روایت باطل جھوٹی ہے۔ روایت ہذا پر تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو:(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ ص70 تا73)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب