السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی دور سے کسی آدمی پر گولی چلاتا ہے یا اس پر کسی مہلک ہتھیار سے حملہ کرنا چاہتا ہےایک دوسرا آدمی جو اس آدمی (جس پروار ہوا ) چاہتا ہے۔کہ اس کی علمی حیثیت یا دین وتقویٰ کی وجہ سے بہت عزت کرتا ہے۔ اس دشمن کے وار کے سامنے اپنے آپ کو کردیتا ہے تاکہ اس کا وار اس پر ہو اور وہ محترم ہستی بچ جائے۔آيا یہ شرعاً جائز ہے یا یہ خود کشی کے تحت آجاتا ہے۔زید کہتا ہے کہ یہ جائز ہے۔کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوجاتے تھے تاکہ کفار کے حملے ان پر ہوں تو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محفوظ رہے۔ایسے واقعات احادیث صحیحہ میں موجود ہیں۔لیکن عمرو کہتا ہے کہ یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص تھا۔کیونکہ یہ محض اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کی راہ میں اپنے آپ کوشہادت کے لئے پیش کرناتھا۔ دوسروں کے لئے ایسا کرنا اس میں نہیں آتا۔ لہذا یہ خود کشی ہوگی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی زی وقار شخصیت صاحب ورع وتقویٰ اور بالخصوص عالم فاضل زی شان کی جان کو درپیش ناحق قتل سے نجات دلانے کی خاطر دوسرے آدمی کا اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا بظاہرجائز معلوم ہوتا ہے چنانچہ بعض روایات میں وار ہے۔کہ جوشخص اپنے مال یا اہل وعیال وغیرہ کی عزت وآبرو کی خاطر مرگیا تو وہ شہید ہے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
٭« من قتل دون ماله فهو شهيد» (١)
(متفق علیہ بحوالہ مشکواۃ ص305)
٭« من قتل دون دينه فهو شهيد ومن قتل دون دمه فهوشهيد ومن قتل دون ماله فهو شهيد ومن قتل دون اهله فهو شهيد »(2)
(رواه الترمذی وابوداؤد والنسائی بحوالہ مشکواۃ :306)
جب دنیا کے حقیر مال ومتاع وغیرہ کی خاطر جان قربان کرنے والا شخص بلند مرتبہ شہادت پرفائز ہوجاتا ہے بندہ مومن مسلمان کی شان تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے اس کے موازنہ ومقابلہ میں دنیا ومافیھا اور خانہ کعبہ کی عظمت بھی کم تر ہی نظر آتی ہے۔
مندرجہ بالا شخص بھی وہ جس کی عظمت ورفعت قعر سمندر میں موجود مخلوق بھی گن گارہی ہے۔اورقرآنی نوید ہے۔
﴿إِنَّما يَخشَى اللَّـهَ مِن عِبادِهِ العُلَمـٰؤُا۟...﴿٢٨﴾... سورة الفاطر
ان اوصاف کے حامل انسان کی جان کے بچاؤ کی خاطر ڈھال بن کر سامنے کھڑا ہونے والا مسلم بطریق اولیٰ اس مرتبہ ومقام کا استحقاق رکھتا ہے۔
خود کشی تو ایک مایوسی کا عمل ہے۔ جس میں رحمت الٰہی میں نااُمیدی اوریآس کا اظہار ہوتا ہے۔اہل اصول کہتے ہیں:
’’ من تعجل بشئ قبل اوانه عوقب بحر مانه ’’
یعنی'' جو قبل ازوقت کسی شی کے حصول کے لئے کوشاں ہوتا ہے اس کا نتیجہ محرومی ہے۔''
جب کہ یہاں زیر بحث مسئلہ میں عزم بالجہاد کارفرما ہے۔ جو مسابقت کا درس دیتا ہے۔یہی وہ جزبہ صادقہ تھا جس کی بناء پرشمع رسالت کے پروانوں نے بسلسلہ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ ان قربانیوں کو خاصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا درست نہیں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات میں اصل عموم ہے۔ دعویٰ بلادلیل حجت واستناد قابل قبول نہ ہوگا۔جب کہ بعد میں جنگ جمل میں بھی ایسے نمونوں کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ملاحظہ ہو:(البدایۃ والنھایۃ)
اس لئے بلا تردد کہاجاسکتا ہے۔کہ فعل ہذا قابل پیروی اور اسلام کے امتیازات میں سے ہے۔جس پرعمل پیرا ہونے والا عظیم اجر وثواب کا مستحق ٹھر ے گا۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب