بخا ری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : میں سو رہا تھا تمام زمین کے خزا نوں کی چا بیا ں لا ئی گئیں اور میر ے ہا تھ میں رکھ دی گئیں اسی طرح بخا ری و مسلم میں آیا ہے کہ بے شک اللہ دیتا ہے میں تقسیم کر تا ہوں ان احا دیث سے بعض حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے مخصوص عقا ئد لو گوں کو بتا تے ہیں ان کی وضا حت کیسے کی جا ئے ۔ جب کہ ان حدیثو ں سے بقو ل ان کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختا ر ہو نا ثا بت ہو تا ہے نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خوا ب سچا ہو تا ہے ؟
اس بشارتکا تعلق مستقبل سے ہے بعد کے ادوار دنیا نے دیکھا کہ مسلما ن ایوا ن کسری میں قرآنی آیا ت ۔
كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ پڑھتے ہو ئے دا خل ہو ئے اور ہر سمت سے مد ینے کی طرف ما ل کھچا کھچ آرہا تھا ورنہ بذا ت خو د آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب انتقا ل ہوا تو درع ایک یہودی کے ہان جو کے عوض گردی رکھی ہو ئی تھی (صحيح البخاري كتاب الجهاد ما قبل في درع النبي صلي الله عليه وسلم (٢٩١٦)(بخا ری کتا ب المغا ری )
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ میں با یں الفا ظ ہے :
یعنی " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س کو ئی شی تھی نہیں جس سے اس درع کو چھڑا سکیں ۔" اور حدیث ،
سے علوم نبو ت مرا د ہیں بلا شبہ ۔ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ کی بنا ء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی اور کئی ایک اہل علم نے اس سے مرا د ما ل کی تقسیم سمجھی ہے کیو نکہ لفظ قسم کا اصل تعلق ما ل سے ہے اس بناء پر امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ حدیث کو کتاب الخمس " میں۔’’ باب قال الله تعاليٰ﴿ فان لله خمسه وللرسول ﴾کے تحت لا ئے ہیں اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو "کتا ب الزکا ۃ میں ذکر کیا ہے لہذا اہل بد عت کا اس سے کو ئی تمسک نہیں ہو سکتا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب