سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) آپﷺ کو وسیلہ بنانا

  • 12825
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1733

سوال

(99) آپﷺ کو وسیلہ بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبی  اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وسیلہ  بنا یا جا سکتا  ہے ؟  جیسے  تمام  لو گ  کہتے  ہیں  کہ وہ  ہما رے  لیے  وا سطہ  یا وسیلہ  ہیں جس طرح  آد م  علیہ السلام   وسیلہ  بنے تھے ۔ جو فضا ئل  اعما ل  میں لکھا  ہے کہ جب آدم  علیہ السلام   نے آنکھ  کھو لی  تو اللہ کے نا م  کے سا تھ  محمد   صلی اللہ علیہ وسلم   کا نا م تھا ۔آدم  علیہ السلام   نے اللہ کو اس نا م  کا واسطہ  دیا  تو ان  کی بخشش  ہو گئی  ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یا د  رہے  وسیلہ  کی دو قسمیں  ہیں :  ایک مشروع  اور دوسر ی  ممنو ع  پھر  مشرو ع  وسیلہ  کی تین  قسمیں  ہیں :

(1)مو من  کا اللہ  سے وسیلہ  چا ہنا  اس کی بر  تر ذا ت  اس کے  اسما ئے  حسنیٰ  اور صفا ت  عا لیہ  کے ذریعہ ۔

(2)مو من  کا وسیلہ  چا ہنا  اپنے  اعما ل  صا لحہ  کے ذریعہ  ۔

(3)مو من کا اللہ  تعا لیٰ  سے وسیلہ  چا ہنا  اپنے  حق میں مو من  بھا ئی  کی دعا کے  ذریعہ ۔

اور ان  تینوںقسموں کی مشروعیت  پر  بے  شما ر  دلا ئل  کتا ب  و سنت  میں مو جو د  ہیں ۔اور  تین  قسمیں  وسیلہ  کی وہ  ہیں  جو ممنو ع  ہیں :

(1)کسی ذا ت  اور  شخص  کو وسیلہ  بنانا  مثلاً کسی  مخصوص  آدمی  کا نا م لے  کر کہے  کہ اے اللہ !  میں  تیری  با ر گا ہ  میں  فلاں  شخص  کو وسیلہ  بنا کر پیش کر تا ہوں کہ تو اس کے  وسیلہ  سے میری  حا جت  پو ری  فر ما دے ! وسیلہ لینے  والے  کے دل  میں فلا ں  شخص  سے اس  شخص  کی ذا ت  مرا د ہو۔

(2)کسی  کی جا ہ  حق حر مت  اور بر کت کا وسیلہ  لینا  مثلاً  وسیلہ  لینے  ولا کہے : اے اللہ ! فلاں شخص  کا تیر ے  پا س جو مر تبہ ہے اس کو وسیلہ  بنا تا ہوں  یا فلاں  شخص  کا  تجھ  پر جو حق  ہے اس کو وسیلہ  بنا تا ہوں  یا اس  شخص   کی حر مت اور بر کت  کو وسیلہ  بنا تا ہوں کہ تو  میر ی  حا جت پو ر ی فر ما دے !

(3)کسی کے وسیلہ سے اللہ پر قسم کھا نا مثلاً کہنے  والا  کہے  : اے اللہ ! فلاں شخص کے وسیلہ  سے تجھ  پر قسم  کھا تا ہوں کہ تو میر ی  حا جت  پو ر ی  فر ما دے !

ممنوع  وسیلہ کو حلال  سمجھنے  والے  انہی  تین  طریقوں  پر وسیلہ  لیتے ہیں  جب  کہ حقیقت  یہ ہے  کہ تینوں  ہی  طریقے  با طل  اور اصول  دین  کے مخا لف  ہیں ۔(کتا ب "مشروع  اور ممنوع  وسیلہ  کی حقیقت ")

اس سے معلوم ہوا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذا ت  کو وسیلہ  بنانا  جا ئز  ہے  اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتبا ع  کو وسیلہ  بنانا جا ئز  ہے  کیو نکہ  اتبا ع  عمل  صا لح  ہے نیز  یہ قصہ  کہ  آدم  علیہ السلام  نے  خطا ء  کی معا فی کے لیے  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ذا ت کا وسیلہ  لیا  من  گھڑت  واقعہ  ہے جس  کی کو ئی  اصل  نہیں  اس  میں  راوی  عبدالرحمن  بن زید (قال البخاري ضعفه علي (ابن مديني) جدا وانظر الميزان (٢/٥٦٤) وقال ابن سعد كا ن كثير الحديث ضعيفا جدا وقال ابو حاتم ليس بقوي وقال الطحاوي حديثه عند اهل العلم بالحديث في النهاية من الضعف وقال الحاكم وابونعيم :روي عن ابيه احاديث موضوعة وقال ابن الجوزي اجمعوا علي ضعفه التهذيب رقم (٣٥٨)با لا تفاق  ضعیف  ہے  کثر ت  سے غلطیاں  کر تا ہے اور ابو حا تم بن حبا ن  رحمۃ اللہ علیہ  کا قو ل ہے  عبد الر حمن  بے  خبر ی  میں  احا دیث  الٹ پھیر  کے بیا ن کر تا تھا  مر سل  کو مر فو ع  بنا دیا  اور مو قو ف  کو مسند  قرار  دے دیا ۔

خو د امام حا کم   رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی  کتا ب " الضعفاء  " میں ان  کو ضعیف  قرار  دیا  ہے  علا مہ  ابن  تیمیہ   رحمۃ اللہ علیہ   نے  تعجب  کا اظہا ر  کیا ہے  کہ حا کم  نے اس روایت  کو کیسے  نقل  کر دیا کہ جب  کہ خود  انہوں نے اپنی  "المدخل " میں ذکر  کیا ہے کہ  عبد الرحمن  بن زید  بن  اسلم  اپنے  وا لد  سے مو ضو ع  احا دیث  کی روا یت  کر تے تھے ۔تا ہم  احا دیث  صحیحہ سے  اور قرآنی  شہا دت  سے ثابت  یہ ہے  کہ آدم  علیہ السلام  کی خطا ء  ان کے اسغفا رو توبہ کی  وجہ سے معا ف ہو ئی ہے نہ کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذا ت کو وسیلہ  بنانے  سے ارشا د  با ری تعا لیٰ  ہے :

﴿قالا رَ‌بَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر‌ لَنا وَتَر‌حَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ﴿٢٣﴾... سورةالاعراف

"ان دو نوں نے کہا : اے ہما ر ے رب ! ہم نے اپنی  جا نوں پر ظلم کیا ہے اور  اگر تو نے  ہم کو  نہ بخشا  اور ہم پر رحم نہ کیا  تو ہم  نقصا ن  اٹھا نے والو ں  میں ہو ں گے " امام ابو حنفیہ  رحمۃ اللہ علیہ   کا فرمان ہے : کسی کے لیے  یہ جا ئز نہیں  کہ اللہ کو اس  کی ذا ت کے سوا  کسی  اور ذریعہ  سے پکا ر ے ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص282

محدث فتویٰ

تبصرے