السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی نیک بزرگ یا پیر یا پیشوا کے ہاتھ اور پاؤں کو تعظیماً بوسہ دینا درست ہے یا نہیں کیونکہ ابو داؤد شریف جلد نمبر 3 حدیث نمبر 1784 میں ہے۔ کہ کچھ لوگ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔کیا ہم بھی کسی نیک سیرت بزرگ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دے سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں کئی احادیث نقل کی ہیں۔جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی محبت کی ان صورتوں کا زکر ہے جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں یا جسم کو بوسہ دیا۔(1) اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماتھے پر بوسہ دیا(2) اور انہیں اپنے ساتھ لگایا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چوما کرتے تھے۔(3) حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات میں دونوں کا آپس میں چومنا ثابت ہے۔(4) سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے وہ''وفد عبد لقیس'' کا واقعہ ہے۔ جن میں ایک شخص ''منذر الاشچ'' بھی تھا۔ لیکن دوسرے ساتھیوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپک کربوسہ دینے کے باوجود اس شخص نے تحمل اور وقار کا مظاہرہ کیا اور تسلی سے اپنا سامان اور سواری باندھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اوردوسروں کے بوسوں سے اظہار محبت کے باوجود منذر کے تحمل اور تسلی سے کام کرنے کی تعریف فرمائی۔(5) (سنن ابو داؤد مع عون المعبود :4/523۔526)
مذکورہ بالا احادیث میں زکر کردہ افعال محبت کی علامات ہیں۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین کی اصل ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
لا يومن احدكم حتيٰ اكون احب اليه من والده و ولده والناس اجمعين (6) (بخاری و مسلم)
اور بخاری ہی کی ایک د وسری حدیث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کوئی شخص اپنی جان سے بھی زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار نہ کرے تو وہ بھی مومن نہیں۔
یہ محبت اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ جو کسی اور سے نہیں کی جاسکتی۔ تاہم وہ افعال جو محبت کا مظہر ہیں۔دوسروں کے ساتھ بھی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ اپنی اولاد کے ہاتھ پاؤں چومنا پیار کی نشانی ہے۔ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔ اور ایسی چیزوں سے محرومی بے رحمی پر محمول کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارا یہی وطیرہ بزرگوں اور پیروں سے روا ہے؟ بظاہر اگر اس کی وجہ دین سے محبت اورعلم کا احترام ہوتو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن بعض کام مختلف پہلوؤں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک پہلو سے پسندیدہ ہونے کے باوصف دوسرے پہلو سے خرابیوں کاباعث ہوتے ہیں۔ یا کسی بڑے گناہ سے مشابہت ہوسکتی ہے توبُرائی کے زرائع بند کرنے کے لئے اہل علم اس سے روکتے بھی ہیں۔جیسے کسی پیر فقیر کے پاؤں کو بوسہ دینے کے لئے جھکنے کی صورت سجدہ کے مشابہ ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شریعت میں اسی وجہ سے سجدہ تعظیمی تک کو شرک قرار دیا گیا ہے۔
اما م شاطبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بدعت کی بحث میں ایک بدعت اضافی کا زکر کیا ہے۔جس کی تعریف ایسا کام ہے جو کتاب وسنت کی طرف منسوب ہو۔لیکن شریعت کی مقررہ حدود سے متجاوز ہوجائے۔سلف صالحین سے اس احتیاط کے پیش نظر ایسی چیزوں کو چھوڑنا یامٹا دینا بھی ثابت ہے جس سے عوام حدود شرعیہ کا پاس نہ رکھیں جیسے کہ صلح حدیبیہ کے وقت جس درخت کے نیچے چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔(7)
جب بعد میں اس کو دیکھنے کے لئے لوگ خاص اہتمام نظر کرتے ہوئے نظر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس درخت کو ہی کٹوادیا۔(8) امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ اولیاء اللہ کی تعظیم میں ان کی پیروی کی تاکید کرتے ہیں لیکن ان کو چومنا چاٹتا بدعات اضافیہ میں شمار کرتے ہیں۔کیونکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بزرگوں کی تعظیم کی غرض سے ان کے ہاتھوں کا بوسہ بُرا جاناہے۔
امام سلیمان بن حرب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہاتھ کا بوسہ ایک چھوٹا سجدہ ہے۔اسی طرح حافظ ابن عبد لبر نے بعض اسلاف سے نقل کیا ہے کہ بلکہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔جب ایک شخص نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہا اور اسے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ اور کہا کہ یہ کام عربوں میں ہلکا آدمی کرتا ہے۔ اور عجم میں ذلیل آدمی یہی وجہ ہے کہ علماء ایسے کام کی خواہش رکھنے والے کو تکبر کا مریض قرار دیتے ہیں کہ اس غرض سے اپنے ہاتھوں کولوگوں کے سامنے کرنا بالتفاق مکروہ ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوالابداع فی مضار الابتداع ۔ص 192۔193)
شرک کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس کی ابتداء نیک لوگوں کے ساتھ عقیدت کے ایسے اظہار سے ہوئی۔(9) جو بظاہر ان کی نیکی کی عظمت کا اعتراف تھا جو بعد میں ان سے متعلقہ تصاویر اور قبروں کے احترام کی ایسی صورت اختیار کرتارہا۔جنھیں شریعت کی تکمیل میں بالآخر منع کردیا گیا ۔(10) لہذا تصویر کشی اب بدترین عذاب کی وعید کا مستوجب ہے۔(11)
آج کل مختلف تہذیبوں میں میل ملاقات کے آداب سے بعض لوگ ایک دوسرے کو بوسہ بھی دیتے ہیں۔جس کا مقصد خلوص ومحبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا اظہار چونکہ تکبر کی بناء پر نہیں ہوتا۔لہذا اسے بھی مکروہ نہیں کہا جاسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ دست بوسی اور قدم بوسی کی اجازت یا تو صرف محبت کی غرض سے ہوسکتی ہے جیسے انسان اپنے بچوں سے کرتا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے احترام کی صورت میں جو عظمت رکوع اورسجود کے شبہ سے خالی ہو۔فتنوں کے اس دور میں ایسے آداب جن سے مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کا خطرہ ہو یا عوام کے شرک وبدعت میں مبتلا ہونے کا خوف ہو احتراز کرنا چاہیے۔(واللہ اعلم بالصواب)۔
مذید تحقیق اور تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: التعليقات السلفية علي سنن النسائي للشيخ محمد عطاء الله حنيف (رقم حديث :4083)نيز ملاحظہ ہو: مولانارحمۃ اللہ علیہ کا مضمون '' مروجہ قدم بوسی کی شرعی حیثیت ''(شائع شدہ در''الاعتصام'' جلد 35 مارچ 1984ء ص821۔822)
1۔(109) صحح الالباني قبلة اليدوالجسد دون الرجل قبلة اليد في ابي داؤد كتاب الادب باب قبلة الرجل (٥٢٢٥)
2۔(110) ضعفة الالباني ضعيف ابي داؤد باب قبلة ما بين العينين (5220) المشكاة (٤٦٨٦)
3۔(١١١) صححه الالباني صحيح ابي داؤد باب في قبلة الرجل ولده (٥٢١٨)
4۔(١١٢) صححه لالباني صحيح ابي داؤد باب في القيام (٥٢١٧) والترمذي ابواب المناقب باب فضل فاطمة (٤١٤٦) (فائده) حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه نے عائشۃ کو بوسہ دیا۔۔۔الخ) صححہ الالبانی صحیح ابی داؤد باب قبلۃ الخد (5222)
5۔(113) حسنۃ الا لبانی بزکر الید دون الرجل (5225) صحیح ابی داؤد کتاب الادب باب فی قبلۃ الرجل والمشکاۃ دون '' الرجل'' (4688)
6۔(114) صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (14۔15) صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر من الاھل۔۔۔(168۔169)
7۔(115) ابن ابی شیبۃ (2/84/1) بحوالہ قبروں پر مساجد للبانی (ص:8 الاردیۃ ) والطبقات لابن سعد (1/416) غزوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحدیبیۃ وفتح الباری (7/448) وصححہ۔
8۔(116) ایضاً
9۔(١١٧) عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ اس آيت ((َ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا)) (نوح:٢٣) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:'' یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے۔جب ان کی موت ہوگئی۔ تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے۔ ان کے بت قائم کرلیں۔ اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں۔چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوئی تھی۔لیکن جب وہ لوگ مرگئے جنھوں نے بت قائم کیے تھے۔اورعلم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر رقم (4920)
10۔(118)((فقال(النبي صلي الله عليه وسلم)) ان اولئك اذا كان فيهم رجل صالح فمات بنوعلي قبره مسجدا وصوروافيه تلك الصور فاولئك شرار الخلق عندا لله يوم القيامة )) (صحيح البخاري كتاب الصلاة باب هل تنبش قبور مشرك.....(٤٢٧) (١٣٤١) (٤٣٤) عن عائشه رضي الله عنها.
11۔(١١٩) ايضاً.
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب