سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) آدم اور حوا کانزول

  • 12807
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 2554

سوال

(81) آدم اور حوا کانزول

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) آدم  علیہ السلام  اور حوا علیھما السلام کا نزول زمین پر کس علاقے میں ہوا تھا؟اکھٹے ایک ہی جگہ یاالگ الگ؟اگر الگ الگ ہواکتنا عرصہ الگ رہے؟

(ب) بیت اللہ کو دنیا کی پہلی مسجد کہا جاتا ہے۔(صحيح البخاري كتاب احاديث الانبياء باب : 10 ح(٣٣٦٦) صحيح مسلم كتاب المساجد باب المساجد ومواضع الصلاة (١١٦١)احمد (٥/١٥٧) اور آدم  علیہ السلام  کی مسجد بھی یہی تھی اس سے مترشح ہوتا ہے۔ کہ ان کا نزول  اس کے قرب وجوار میں ہواتو کیا اس کی عمارت کی تعمیر آدم  علیہ السلام  نے کی تھی یاپہلے سے عمارت موجود تھی؟

(ج) حجر اسود ابتداء کہاں سے آیا؟ابراہیم  علیہ السلام  کو تعمیر مسجد کے لئے اس کی بنیادوں کی نشاندہی کی گئی گویا ظاہراً عمارت موجود نہ تھی تو اس وقت حجر اسود کہاں تھا؟کیا انہوں نے بھی دیوار میں ہی نصب کیا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(الف) تفسیر قرطبی میں ہے:آدم  علیہ السلام  کا نزول سرندیپ ہند میں ہوا۔اور حوا   علیہ السلام  کو جدہ میں اتاراگیا۔(1/319 ۔320) زمانہ فراق کی مدت کے بارے میں کوئی صحیح صریح نص نظر سے نہیں گزری۔

(ب) تاریخوں میں ہے کہ بیت اللہ کی پہلی بنافرشتوں نے کی اوردوسری تعمیر آدم  علیہ السلام  نے (تاریخ الکعبۃ المعظمۃ :40 تا 47) آدم  علیہ السلام  کی تعمیر کعبہ سےلازم نہیں آتا کہ وہ قرب وجوار میں تھے۔حضرت ابراہیم  علیہ السلام  ملک شام میں سکونت کے باجود بیت اللہ کے بانی ہیں۔

(ج)بعض روایات کے مطابق ا س کی آمد جنت سے ہے۔( صححه الالباني صحيح الترمذي (٨٧٧) وقال الترمذي :هذا حديث حسن صحيح والمشكاة (٢٥٧٧) وتحقيق الثاني للالباني (2510) باب دخول مكة والطواف) اگرچہ بعض میں ضعف ہے لیکن دیگر بعض قابل استدلال ہیں۔(فتح الباری 3/462) بلکہ کعبہ کی اساس موجود تھی۔ابراہیم  علیہ السلام  نے انہی بنیادوں پر عمارت کو استوار کیا۔ملاحظہ ہو''تاریخ الکعبۃ المعظمۃ'' تاریخی روایات  سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی حجر اسود کاوجود زمین پر قائم رہا ہے۔اگرچہ کیفیات کی وضاحت مشکل امر ہے چاہے وہ دور ابراہیمی میں ہو یااس سے قبل۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص259

محدث فتویٰ

تبصرے