سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

آیات کی تفسیر

  • 12800
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1508

سوال

آیات کی تفسیر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو لو گ اللہ تعا لیٰ کی نا ز ل کر دہ شریعت کے مطا بق  فیصلے  نہیں کرتے  اللہ تعا لیٰ نے ان  کے متعلق  فر ما یا :

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِر‌ونَ ﴿٤٤﴾... سورة المائدة
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورةالمائدة
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿٤٧﴾... سورةالمائدة

٭جنا ب مفتی  صا حب  ان آیا ت  کی رو شنی میں اس با ت  کی وضا حت  فر ما دیں  کہ ہما ر ے  ملک  پا کستا ن کے جج صا حبا ن  کے فیصلوں  کا کیا حکم  ہے ۔

٭انہیں  فا ضل جج کے لقب  سے نوا زے  کے با ر ے  میں آپ کا کیا خیا ل ہے ؟

٭©علما ئے کرا م کا ان لو گوں  کے سا تھ  میل جو ل  رکھنا  کیسا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہما ر ے ملک  پا کستا ن  میں جج صا حبا ن  کے جو فیصلے  شر یعت  کے مطا بق  ہیں وہ قا بل  تحسین  اور  جو اس  کے خلا ف  ہیں  وہ مردو د ہیں  شرعاً ان کی کو ئی حیثیت نہیں ۔

اگر  کو ئی جج  خلا ف  شر یعت  فیصلہ حلال  سمجھ کر کر تا  ہے  بلا شبہ  وہ کا فر  اور ملت  اسلا میہ  سے خا رج ہے اور جو  یہ اعتقا د  رکھتا  ہے کہ میں حرا م  کا مر تکب ہوں  او ر قبیح فعل  کر رہا ہوں  ایسے  جج  کا کفر  ظلم اور فسق  اسے ملت  اسلا میہ  سے خا رج  نہیں  کر تا کیو نکہ کفر اور ظلم  وغیرہ  کے درجا ت  ہیں اس سے خروج عن الملۃلا زم  نہیں  آتا  جملہ  تفا صیل صحیح بخا ر ی  کی "کتا ب  الایما ن  "میں (صحيح البخاري كتاب الايمان باب كفران العشير وكفردون كفر رقم الباب (٢١) وباب المعاصي من امر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها الا بالشرك رقم الباب (٢٢) والحديث ’’سباب المسلم فسوق قتاله كفر’’ صحيح البخاري (٤٨)اس بنا پر گنہگا ر  جج پر فا ضل جج  کے اطلاق کا ۔

جوا ز  ہے بخلا ف  پہلی  قسم  کے ۔رہا  یہ مسئلہ  کہ علما ء  ان حضرات  سے ملا قات  کر سکتے  ہیں یا نہیں ؟تو علما ء  کا مقصد  اگر اصلا ح  ہے تو  ان حضرات  سے میل  ملا قا ت  کا کو ئی حر ج نہیں ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص253

محدث فتویٰ

تبصرے