سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) قرب قيامت پندرہ خصلتیں علامتِ قیامت

  • 12789
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4632

سوال

(66) قرب قيامت پندرہ خصلتیں علامتِ قیامت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الاعتصام کے 15 ستمبر کے شمارے میں ایک مضمون ''پندرہ خصلتیں'' کے عنوان سے چھپا تھا۔ اس کے حوالہ سے عرض ہے کہ یہ پندرہ کی پندرہ خصلتیں آج پوری امت میں موجود ہیں۔اور کچھ لوگ ان کو قرب قیامت کی علامات بیان کرتے ہیں۔کیا یہ درست ہے۔؟دوسرے بریلوی  حضرات چودھویں صدی کا بہت زکر کرتے ہیں جو کہ اب گزر چکی بلکہ اگلی صدی کے دس سال بھی گزر گئے ہیں۔اس کے بارے میں قرآن اور حدیث کا کیا فرمان ہے؟دوسرے حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  یاامام مہدی دونوں میں سے کون پہلے آئے گا۔اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں اس بارے میں ک یا ارشاد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرب قیامت کی بہت ساری علامات ہیں۔جن کاتذکرہ متعدد احادیث میں موجود ہے۔ان میں سے بہت سی روایات کو حافظ ابن کثیر نے ''النھایۃ'' میں جمع کردیا ہے۔کتاب ھذا پہلی دفعہ 1388ہجری میں ریاض (سعودی عرب) سے دو جلدوں میں شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے تصنیف لطیف بے حد مفید اور لائق مطالعہ ہے۔

بنا بریں محولہ بالاپندرہ خصلتیں بھی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔اسی روایت کے آخر میں ہے:پھر یکے بعد دیگر بلاوقفہ علامات کا ظہور ہوگا جس طرح تسبیح کاجواہر دھاگہ اور لڑی ٹوٹنے سے پے درپے دانے بکھر جاتے ہیں۔صاحب مشکواۃ نے بھی اس روایت کو ''اشراط الساعۃ'' کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:غزنوی ترجمہ مشکواۃ (4/101)

بعض آثار میں وار دہے۔ کہ دنیا کی کل عمر سات ہزر سال ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت چھ ہزار سال کے دورران ہے۔مفسر سلیمان الجمل فرماتے ہیں۔آثار سے پتہ چلتا ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کی مدت ہزار سال سے متجاوز ہے۔لیکن یہ زیادتی پانچ سو سال کو نہیں پہنچ سکے گی۔موضوع ہذا پر علامہ سیوطی کی ایک تصنیف '' بناء الکشف عن مجاوزۃ ھذۃ الامۃ الالف '' موجود ہے۔(الفتوحات الالھۃ 4/413 طبع مصر)

انہی آثار پراعتماد کرتے ہوئے بعض حضرات نے چودھویں صدی ہجری کی اہمیت اجاگر کرنے کی سعی کی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحدید کے بارے میں وارد آثار واقوال لائق اعتناء استناد اور قابل  تسلی نہیں۔قرآنی فیصلہ حتمی ویقینی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُر‌سىٰها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَ‌بّى ۖ لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ...١٨٧﴾... سورة الاعراف

''یعنی(لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے کہہ دو! کہ اس کا علم تو میرے پروردیگار ہی کو ہے۔ وہی اسے  اس کے وقت پر ظاہر کردے گا۔''  اور''حدیث جبریل'' میں ہے آپ نے قیامت کےبارے میں سائل کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

ما المسئول عنها باعلم من السائل‘ انظر الرقم المسلسل (٤٥)

''مسؤل عنہ کو بھی سائل سے زیادہ علم نہیں۔''

حافظ اب کثیر مسئلہ مہدی پرتفصیلی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

واظن ظهوره قبل نزول عيسيٰ بن مريم كما دلت علي ذلك الاحاديث ’’

 یعنی'' میرا خیال ہے مہدی کا ظہور حضرت عیسیٰ بن مریم  علیہ السلام  سے پہلے ہوگا۔جس طرح کہ کئی ایک احادیث اس بات پر دال ہیں۔''

بسط وتفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:(النھایۃ :ص 27 تا 33 اور عون المعبود :4/170)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص240

محدث فتویٰ

تبصرے