سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) کراماً کاتبین اعمال پر ہی مطلع ہوجاتے ہیں یا عملی صورت میں ظہور کے بعد ؟

  • 12776
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1382

سوال

(57) کراماً کاتبین اعمال پر ہی مطلع ہوجاتے ہیں یا عملی صورت میں ظہور کے بعد ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کراماً کاتبین اعمال پر ہی مطلع ہوجاتے ہیں یا عملی صورت میں ظہور کے بعد ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب وسنت سے یہ بات ہدایۃً  معلو م ہوتی ہے۔ کہ دلوں کے بھیدوں سے صرف اللہ عزوجل ہی واقف ہے۔ اس کے سواکوئی نہیں جانتا ہے۔ وہ فرشتے ہوں یا انس وجن وغیرہ قرآن مجید میں ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

﴿وَأَسِرّ‌وا قَولَكُم أَوِ اجهَر‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ‌ ﴿١٣ أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ‌ ﴿١٤﴾... سورة الملك

'' اور تم (لوگ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر وہ دل کے بھیدوں تک سے واقف ہے بھلاجس نے  پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اورہر چیز سے آگاہ ہے۔''

اور صورت مرقومہ میں فرشتوں کی  طرف جس علم کی نسبت کی گئی۔یہ وہ علم ہے جو تجدد اور استمرار کی شکل میں معرض وجود میں آتا ہے۔آیت کریمہ میں مضارع کے صیغوں کااستعمال بھی اس بات کی واضح دلیل ہے۔اس لئے کہ صیغہ مضارع میں حال اور مستقبل کا زمانہ پایا جاتا ہے۔دوسری جگہ فرمایا:

﴿إِذ يَتَلَقَّى المُتَلَقِّيانِ عَنِ اليَمينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعيدٌ ﴿١٧ ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَ‌قيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق

''جب( وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں لکھ لیتے ہیں کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس  تیاررہتا ہے۔''

لیکن اس پر ایہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے :اللہ عزوجل کاارشاد ہے:

''جب میرا بندہ بُرائی کاارادہ کرتاہے۔حکم ہوتا ہے کہ فرشتو! اسے تحریر میں مت لانا حتیٰ کہ عمل کر گزرے۔اگر یہ عمل کرلیتا تو صرف ایک بُرائی لکھو۔اوراگر اس نے میری رضا کی خاطر بُرائی کو ترک کردیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دو۔'' (صحیح بخاری ۔کتاب التوحید)

اس حدیث سے معلوم ہوتا  ہے کہ فرشتے باطنی قلبی اُمور پرمطلع ہوجاتے ہیں۔

اس اشکال کا جواب یوں ہے کہ یہاں فرشتوں کا قلبی امر پرمطلع ہونا اللہ کی طرف سے آگاہی پانے کی وجہ سے ہے۔چنانچہ ابن ابی الدنیا نے ابو عمران الجونی سے بیان کیا ہے کہ'' بارگاہ الٰہی سے آواز آتی ہے :فلاں  کے لئے اتنا اتنا ثواب لکھ دو۔فرشتہ عرض کرتا ہے :اے پروردیگار  اس نے تو یہ عمل کیا بھی نہیں ۔اللہ فرماتا ہے: اس نے نیت تو کرلی ہے۔'' اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ بُرائی کی بدبو اور نیکی کی خوشبو کی وجہ سے فرشتوں کو  معلوم ہوجاتا ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ فرشتے میں علم کا ادراک پیداکردیتا ہے جس سے اس کو محسوس ہوجاتا ہے۔

بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو یہ بات مسلمہ ہے کہ دلوں کے راز صرف اللہ کے ہاں محفوظ ہیں۔اور وہی واقف ہے۔اس کے سوا یہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔( إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ)(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:فتح الباری :11/325)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص234

محدث فتویٰ

تبصرے