السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک غیر مسلم(عیسائی) کے ساتھ دینی معاملات کے بارے میں بحث کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یہ عیسائی ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہی نہیں۔اور نہ ہماری کتاب قرآن مجید کو مانتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام کی سربلندی اور اظہار صداقت کے لئے غیر مسلموں سے بحث مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ اتمام حجت ہوسکے۔
قرآن میں ہے:
﴿لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّسُلِ...﴿١٦٥﴾... سورة النساء
''تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ پر الزام کا موقعہ نہ رہے۔''
جس طرح کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وفد نجران(عیسائی وفد) سے الوہیت مسیح علیہ السلام پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔ا س کی جملہ وضاحتیں ''کتاب اللہ سورہ آل عمران''اور''کتب تفاسیر'' میں موجود ہیں۔یہ لوگ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔اس كے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے جملہ مسائل پر گفتگو فرمائی جو ما بعد بہت سارے افراد کی رشد وہدایت کا سبب بنی۔ اسی طرح بسلسلہ دعوت اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چٹھی ہر قل عیسائی بادشاہ کی طرف بھی ارسال فرمائی تھی۔(1) جس کی تفصیل صحیح بخاری کے اوائل میں موجود ہے ہاں البتہ یہ از بس ضروری ہے کہ انداز تخاطب معاندانہ اور مخاصمانہ کے بجائے ناصحانہ ہونا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تُجـٰدِلوا أَهلَ الكِتـٰبِ إِلّا بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ إِلَّا الَّذينَ ظَلَموا مِنهُم...٤٦﴾... سورة العنكبوت
‘‘اوراہل کتاب سے جگڑانہ کرومگرایسے طریقے سے کہ نہایت اچھا ہو۔ہاں ان میں سے جو بے انصافی کریں (ان کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو)''
ظاہر ہے جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کا قائل نہیں۔اس سے اعتراف قرآن کی توقع بھی عبث ہے۔وہ تو یہی کہے گا کہ تعلیمات مسیح علیہ السلام دائمی وابدی ہیں۔جب کہ واقعات وحقائق دعویٰ مزعومہ کی تکزیب کررہے ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا:
﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ...٦﴾... سورة الصف
''اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نا م احمد ہو گا ۔میں ان کی بشارت سناتا ہوں۔''
یاد رہے کہ نبی موعود کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے پیدا ہونا تورات کی کتاب استثناء باب 17۔18۔19۔سے اور مکہ( فاران) سے ظاہر ہونا استثناء سے ثابت ہے۔ اسی طرح کتاب استثناء 33 باب 1۔2۔درس میں ہے'' یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ علیہ السلام مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑ سے ہی وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنی ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔سینا سے آنے سے موسیٰ علیہ السلام اور شعیر سے خداوند کے ساتھ آنے سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔باقی پیش گوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ہے۔جو دس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ فاران کے پہاڑ سے فاران والوں پر جلوہ گر ہوئے تھے۔آتشی شریعت سے مراد نورانی اور آسمانی شریعت ہے۔کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے آگ میں سے کلام سنا تھا'' ان کے سے'' سے مراد یہ تھی کی اہل مکہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوجائیں گے۔(رحمۃ اللعالمین 1/111) تعلیمات مسیح علیہ السلام میں یہ بات معروف ہے کہ انہوں نے کہا تھا میں صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اب بتایئے ''مسیح'' کی نبوت عالم گیر کیسے بن گئی جب کہ ان کا اقرار مدعا کے منافی ہے؟
واضح ہوکہ اولاد اسماعیل میں نبوت ہونے کی بابت بائبل کی کتابوں میں بہت سے حوالے ملتے ہیں:
اول: یہ کہ اسحاق علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام سے اللہ نے برابر کے وعدے کئے تھے۔
دوم: یہ کہ عرب میں پیدا ہونے والے نبی کے نشانات اور علامات کی پیش گوئیاں بہت سے انبیاء علیہ السلام نے کی ہیں اور چونکہ عرب میں صرف اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہی آباد تھی اس لئے ان پیشین گوئیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی موعود اسماعیلی ہوگا۔
سوم:موسیٰ علیہ السلام کی پیش کردہ پیشن گوئی اس بارہ میں بہت واضح ہے۔درس 81 میں ۔۔۔ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا۔ وہ سب ان سے کہے گا۔کتاب استثناء باب 18 یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحب کتاب صاحب شریعت صاحب جہاد مہاجر وغازی ہیں۔اور منہ میں کلام سے مطلب وحی کے اصل الفاظ کا محفوظ رہنا ہے۔یہ خصوصیت صرف قرآن مجید کی رہی ہے۔بائبل کے مجموعہ میں سے کسی کتاب کو یہ درجہ حاصل نہیں کہ اس کے الفاظ بھی اصلی محفوظ رہے ہوں۔(رحمۃ اللعالمین :1/178۔179)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب