السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرض ہے کہ ہمارے گاؤں ''سوکن ونڈ'' کے گورنمنٹ رضائے مصطفیٰ ہائی سکول کے ایک استاد نے چھٹی جماعت کے ٹیسٹ پیپرز گائیڈ یعنی امدادی کتب(جو سکول میں لانا منع ہیں۔جن میں دینیات وعربی کی قرآنی آیات موجود ہیں) بچوں سے اکھٹی کرکے(جن کی تعداد تقریباً 50 ہے۔) مٹی کا تیل ڈال کر جلادیں۔ اس کے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟اس استاد کو قرآن وسنت کی روشنی میں شرعی سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنی آیات والے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنا جائز ہے۔ پانی میں بہادیئے جائیں یا پاکیزہ زمین میں دفن کردیئے جائیں۔اوراق کو جلانے کا عمل بھی درست ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے:
''وامر بما سواہ من القرآن فی کل صحيفة او مصحف ان یحرق ۔'' (باب جمع القرآن)
'' حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صحف سے منقول قرآن کے علاوہ ہر صحیفے یامصحف میں جو قرآن ہے اسے جلانے کا حکم صادر فرمایا۔''صحیح البخاری (4987)
شارح بخاری امام ابو الحسن ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ في هذ االحديث جواز تحريق الكتب التي فيها اسم الله بالنار وان ذلك اكرام لها وصون عن وطئها بالاقدام وقد اخرج عبد الرزاق عن طريق طاووس انه كان يحرق الرسائل التي فيها البسملة اذا ا جتمعت وكذا فعل عروة ’’
’’ اس حدیث سے یہ مسئلہ ہے کہ ان کتابوں کو جلانا جائز ہے۔جن میں اللہ عزوجل کا اسم گرامی ہو۔اس میں ان کی عزت و اکرام ہے۔بجائے اس کے کہ قدموں کے نیچے روندے جائیں۔اور ان کی بے ادبی ہو۔طاووس کے پاس جب اللہ کے نام والے کتب ورسائل جمع ہوجاتے تو انہیں جلا ڈالتے۔عروہ کا فعل بھی اسی طرح مروی ہے۔(فتح الباری :9/21)
لہذا موصوف کے فعل ہذا پر شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب