سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) بیت اللہ کی تصویر والے جائے نماز پر نماز پڑھنا

  • 12726
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2405

سوال

(09) بیت اللہ کی تصویر والے جائے نماز پر نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عام مسجدوں میں رواج ہے کہ مصلی کےاوپر ایک فالتو جائے نماز منقش ہوتا ہے جس پر بیت اللہ کی تصویر ہوتی ہے چونکہ بیت اللہ  عزت والا اللہ کا گھر ہے اور ہمارے امام سلام کے بعد جو بیٹھتے ہیں تو ان کے (چوتڑ) پیٹھ کعبہ شریف کی تصویر پر ہوتے ہیں۔یہ کیا بیت اللہ کی بے عزتی نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منقش مصلی پر نماز پڑھنے سے قطعاً پرہیز کرنا چاہیے اس پر بیت اللہ کی تصویر بنی ہو یا نہ ۔صحیح حدیث میں ہے:

« ان النبي صلي الله عليه وسلم صلي في خميصة لها اعلام فنظر الی اعلامھا نظرۃ فلما انصرف قال:(( اذهبوا بخميصتي هذه الي ابي جهم وائتوني بانبجانية ابي جهم فانها الهتني آنفا عن صلاتي » (بخاري باب  اذا صلي في ثوب له اعلام ونظر الي اعلامها ١)

یعنی'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک  دفعہ دھاری دار کمبل میں نماز پڑھی تو اس کے نقش ونگار پر نگاہ پڑ گئی۔نماز سے فارغ ہوکر فرمایا: میرے اس کمبل کو ابو جھم کے پاس لے جاؤ(اس کے بدلے میں) اس سے سادہ موٹا کمبل لے آؤ۔کیونکہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا ہے۔''

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

’’ وينستنبط منه كراهية كل ما يشغل عن الصلاة من الاصباغ وانقوش ونحو ها ’’ (فتح الباری 1/483) (2)


1۔(9) صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام۔۔(373) ۔(752)۔

2۔(10) باقی رہا مسئلہ بیت اللہ کی  توہین کا تو اس سلسلے میں واضح ہوکہ  کسی چیز کی تصویر پراس اصل چیز کے احکام نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات اس کے برعکس احکام لاگو ہوتے ہیں۔مثلا انسان کا ادب واحترام کرنے کا حکم ہے مگر انسانی تصویر کا احترام کرنا ممنوع ہے۔جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔«فاخرج صورة ابراهيم اسماعيل في ايهديهما من الازلام...الخ صحيح البخاري كتاب المغازي باب اين زكر النبي صلي الله عليه وسلم الراية يوم الفتح ؟»(٤٢٨٨) عن ابن عباس رضي الله عنهما ) (قاري نعيم الحق نعيم  رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص192

محدث فتویٰ

تبصرے