سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) دعا میں ان شا اللہ کہنا

  • 12708
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1545

سوال

(241) دعا میں ان شا اللہ کہنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دعا میں انسان کے ان شا اللہ کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا کرتے وقت انسان کو چاہیے کہ وہ یہ نہ کہے کہ اے اللہ! تو چاہے تو اس دعا کو قبول کرلے، بلکہ دعا پورے عزم اور رغبت سے کرنی چاہیے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کوئی مجبور تو نہیں کرسکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ادعونى أَستَجِب لَكُم...٦٠﴾... سورة المؤمن

’’تم مجھ سے دعا کرو میں (تمہاری دعا قبول کروں گا)

اللہ تعالیٰ نے چونکہ قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے، لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ انسان یہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو دعا قبول فرما لے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو دعا کی توفیق عطا فرما دیتا ہے تو وہ یا تو اس کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرما دیتا ہے یا اس دعا کی برکت سے اس سے کسی شر کو دور فرما دیتا ہے یا روز قیامت کے لیے اسے ذخیرہ کردیتا ہے۔ نبیﷺ نے بھی فرمایا ہے:

(‏ لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، إِنْ شِئْتَ‏.‏ لِيَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لاَ مُكْرِهَ لَهُ ‏"‏‏.‏)(صحیح البخاري الدعوات باب ليعظزم المساله فانه لامكره له حديث:6339 ،7477وصحیح مسلم الذکر والدعا باب العزم بالدعا.....الخ حدیث:2679)

’’ یا تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ ” یا اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے معا ف کر دے ۔ میرے مغفرت کر دے “ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔‘‘

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کیا نبیﷺ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ مریض سے فرمایا کرتے تھے :

(لاباس طهور انشاء الله تعالي)) (صحيح البخاري المرض باب عيادة الاعراب ح:5656)

’’اس میں کوئی حرج نہیں یہ بیماری ان شاء اللہ گناہوں سے پاک کردے گی۔‘‘

تو ہم عرض کریں گے کہ ہاں! یہ نبیﷺسے ضرور ثابت ہے، مگر یہ الفاظ دعا کے باب سے نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق تو باب خبر اور امید سے ہے، لہٰذا آداب دعا میں سے یہ ایک اہم ادب ہے کہ انسان پورے جزم اور وثوق کے ساتھ دعا کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص191

محدث فتویٰ

تبصرے