السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک نوجوان ہوں، مسلمان پیدا ہوا اور میں کبھی نماز نہیں چھوڑتا تھا۔ مشیت اقدار سے مجھے اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک سفر کرنا پڑا اور پھر کچھ عرصہ میں ان کے بغیر تنہا بھی رہا اور چار سال سے زیادہ عرصہ تک میں نے نماز چھوڑے رکھی اور بہت سے گناہوں کا ارتکاب کیا۔ چار سالوں کے رمضان کے مہینوں کے روزے بھی نہیں رکھے۔ رمضان کے مہینے میں دن کے وقت اپنی بیوی سے مباشرت بھی کرتا رہا اور یہ سب کچھ برے ساتھیوں کا نتیجہ تھا، لیکن اب میں اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں، اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور نماز بھی باقاعدگی سے تنہا یا باجماعت ادا کرنے لگا ہوں۔ راہنمائی فرمائیں کہ ان حالات میں مجھ پر کیا واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر کیا ہے، تو سچی توبہ ہی کافی ہے کیونکہ سچی پکی (خالص) توبہ سابقہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ آپ پر نماز اور روزہ کی قضا یا کسی چیز کا کفارہ لازم نہیں ہے کیونکہ علما کے صحیح قول کے مطابق ترک نماز کفر ہے، خواہ اس کے وجوب کا انکار نہ بھی کیا جائے اور جو شخص وجوب نماز کا منکر ہے، وہ بالاجماع کافر ہے اور کافر جب مسلمان ہو جائے تو حقوق اللہ سے متعلق واجبات کی قضا اس پر لازم نہیں ہے کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل لِلَّذينَ كَفَروا إِن يَنتَهوا يُغفَر لَهُم ما قَد سَلَفَ... ﴿٣٨﴾... سورة الانفال
’’ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے۔‘‘
اور نبیﷺ نے فرمایا:
(لْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ التوبة تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَ)(صحيح مسلم الايمان باب كون الاسلام يهدم ماقبله....حديث:121والشطر الثاني لم اجده)
’’اسلام سابقہ گناہوں کو مٹادیا ہے اور توبہ بھی سابقہ گناہوں کو مٹادیتی ہے۔‘‘
ہم آپ کو یہ وصیت کریں گے کہ توبہ پر استقامت کا مظاہرہ کریں، کثرت سے استغفار پڑھیں اور کثرت کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لائیں۔ اگر آپ نے توبہ پر استقامت کا مظاہرہ فرمایا اور نیک اعمال سرانجام دیتے رہے تو ہم آپ کو خیر و بھلائی اور اچھے انجام کی خوش خبری سناتے ہیں کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا ثُمَّ اهتَدىٰ ﴿٨٢﴾... سورة طه
’’ ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راه راست پر بھی رہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو حق پر ثابت قدم رکھے۔ انہ خیر مسئوول۔
آپ کے سوال میں یہ الفاظ بھی ہیں، جن کے بارے میں متنبہ کرنا ضروری ہے کہ ’’مشیت اقدار سے‘‘ بات یہ ہے کہ تقدیروں کی کوئی مشیت اور چاہت نہیں ہے، لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے شَآ اللّٰہُ وَحْدَہٗ یا شَآ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ ’’ اللہ وحدہ نے یا اللہ سبحانہ نے یہ چاہا‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دین میں فقاہت اور استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب