السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک انسان نے اپنے دور جوانی میں بعض ایسے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا، جو اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ہیں مگر اب اس نے توبہ کرلی ہے اور اب وہ درج ذیل امور کے بارے میں استفسار کرنا چاہتا ہے:
1… وہ گناہ کے جرم سے ڈرتا ہے کہ کہیں اس میں کچھ وقت کے بعد دوبارہ مبتلا نہ ہو جائے؟
2… وہ ڈرتا ہے کہ جرم، گناہ دوبارہ اس کی توبہ و ثبات پر اثر انداز نہ ہو؟
3… کیا ان افعال کا بھی محاسبہ ہوگا جن سے وہ توبہ کرچکا ہے؟
4… کیا لعنت گناہ کے وقوع پذیر ہونے کے وقت واقع ہوتی ہے؟
5… جب اس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا تو اس وقت اسے ان کی سزا کا علم نہ تھا، تو کیا ان گناہوں کی سنگینی سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ شخص قابل معافی ہوگیا، اس نے یہ گناہ بھی خفیہ طور پر کیے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو شخص بھی کسی گناہ سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے خواہ گناہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣﴾... سورة الزمر
’’(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔‘‘
یہ خوشخبری توبہ کرنے والوں کے لیے ہے۔
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّـهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّـهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّـهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان
’’ اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال لائے گا- اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا - سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔‘‘
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ توبہ سابقہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے(۱) اور ہم سے پہلے گزرے ہوئے اس آدمی کا قصہ ہے، جس نے ننانوے آدمیوں کا قتل کرنے کے بعد ایک عابد سے پوچھا، کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں، تمہاری توبہ قبول نہیں ہوسکتی تو اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس طرح اس نے ایک سو کی تعداد کو پورا کرلیا، پھر اس نے ایک عالم سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہاں توبہ کرنے سے کوئی امر مانع نہیں ہے۔ نیز انہوں نے ایک ایسی بستی کی نشان دہی کی جس میں نیک لوگ بستے تھے اور حکم دیا کہ ہجرت کرکے وہاں چلے جاؤ، وہ ابھی راستہ ہی میں تھا کہ پیغام موت آگیا تو اس کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں نے آپس میں جھگڑنا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک فرشتے کو بھیج دیا اور اس نے کہا کہ دونوں بستیوں کے درمیان کے فاصلہ کی پیمائش کرلو، جس بستی کا فاصلہ زیادہ قریب ہو، اسے اسی میں سے شمار کرلو، فاصلہ کی جب پیمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ نیک بستی کے زیادہ قریب ہے لہٰذا اس کی روح کو رحمت کے فرشتے لے گئے۔ (۱)سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے کئی ایسے گناہ کیے ہیں جو مستوجب لعنت ہیں مگر اب اس نے ان گناہوں سے توبہ کرلی ہے، تو میں اسے خوش خبری سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی سچی پکی (خالص) توبہ کو ضرور قبول فرما لے گا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(۱) صحیح مسلم، الایمان، باب کون الاسلام یھدم ماکان قبله، حدیث:121بلفظ آخر
(۱) صحیح البخاری احادیث الانبیا، رقم الباب: 54، حدیث:3470 وصحیح مسلم التوبة ، باب قبول توبة القائل، وان کثر قتله، حدیث:2766
﴿إِنَّمَا التَّوبَةُ عَلَى اللَّـهِ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السّوءَ بِجَهـٰلَةٍ ثُمَّ يَتوبونَ مِن قَريبٍ فَأُولـٰئِكَ يَتوبُ اللَّـهُ عَلَيهِم ۗ وَكانَ اللَّـهُ عَليمًا حَكيمًا ﴿١٧﴾... سورة النساء
’’ اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے ۔‘‘
’’ پھر جلدی توبہ کرلیتے ہیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے پہلے توبہ کرلیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَيسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ حَتّىٰ إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ إِنّى تُبتُ الـٔـٰنَ وَلَا الَّذينَ يَموتونَ وَهُم كُفّارٌ ۚ أُولـٰئِكَ أَعتَدنا لَهُم عَذابًا أَليمًا ﴿١٨﴾... سورة النساء
’’ ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
سائل کو چاہیے کہ اپنی توبہ کو برقرار رکھے، ثابت قدم رہے، تاکہ شیطان اس کے دل میں یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ اس کی توبہ مقبول نہیں یا یہ کہ اس سے اس گناہ کا بھی حساب لیا جائے گا جس سے یہ توبہ کرچکا ہے۔ البتہ اگر توبہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو پھر اس کے لیے یہ واجب ہے کہ متعلقہ لوگوں کے حقوق ادا کردے یا ان سے معاف کرالے اور اگر وہ حق داروں کو یا فوت ہو جانے کی صورت میں ان کے وارثوں کو نہ جانتا ہو تو ان کی طرف سے صدقہ کردے تاکہ ان حقوق سے بھی وہ بریٔ الذمہ ہو جائے مثلاً اگر گناہ کی صورت یہ ہو کہ اس نے کسی کا مال لیا ہو اور پھر اس سے توبہ کرلی ہو تو اس کے لیے واجب یہ ہے کہ یہ مال اس کے مالک کو واپس لوٹا دے اور اگر وہ زندہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو دے دے اور اگر وہ اسے جانتا نہ ہو یا اسے بھول گیا ہو تو اس کی طرف سے نیت کرتے ہوئے اس مال کو صدقہ کردے۔ نیت کرتے ہوئے یہ کہے کہ یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے، جس سے اس نے مال لیا تھا اور اگر چاہے تو یہ کہے کہ یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے، جس کا یہ مال ہے کیونکہ اگر وہ فوت ہوچکا ہو تو پھر یہ مال اس کے وارثوں کی طرف سے صدقہ ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو تو علم ہے کہ یہ کس کا مال ہے لہٰذا وہ اس کے مستحق تک اس کا ثواب پہنچا دے گا۔
سائل نے جو ذکر کیا ہے کہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ گناہ اس کی توبہ پر اثر انداز ہوں گے تو اسے اس بات سے قطعاً نہیں ڈرنا چاہیے، کیونکہ توبہ کرنے سے سابقہ گناہ اس طرح مٹ جاتے ہیں کہ ان کا مطلقاً کوئی اثر باقی نہیں رہتا اور بسا اوقات توبہ کرنے کے بعد انسان توبہ سے پہلے کی زندگی سے بہت بہتر ہو جاتا ہے کیونکہ توبہ سے اسے انابت الی اللہ اور خوف الٰہی کی توفیق ملتی ہے اور ایسے قلبی احوال اور بدنی اعمال کی توفیق ملتی ہے، جن سے اس کا مقام و مرتبہ پہلے کی نسبت بہت بلند ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمﷺ کی توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَعَصىٰ ءادَمُ رَبَّهُ فَغَوىٰ ﴿١٢١﴾ ثُمَّ اجتَبـٰهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدىٰ ﴿١٢٢﴾... سورة طه
’’ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی، پس بہک گیا (121) پھر اس کے رب نے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اس کی رہنمائی کی-‘‘
سائل نے جو یہ پوچھا ہے کہ لعنت معصیت کے وقوع کے وقت واقع ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لعنت کبھی تو معصیت کے وقوع کے وقت ہی لاحق ہوتی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کے ارادہ و حکمت کے مطابق مؤخر بھی ہوسکتی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرما دے تو پھر لعنت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کے ہیں اور جو شخص توبہ کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں ہے۔
سائل نے جو یہ پوچھا ہے کہ اسے ان جرائم کی سزا کا علم نہیں تھا تو سزا کے علم نہ ہونے سے سزا ختم نہیں ہوتی خواہ وہ دنیوی ہو یا اخروی، بشرطیکہ اسے یہ علم ہو کہ یہ کام کرنا حرام تھا۔ اگر انسان اپنے دل میں یہ کہے کہ اگر اسے یہ علم ہوتا کہ اس گناہ کی یہ سزا ہے تو وہ اس کا ارتکاب نہ کرتا تو یہ کوئی عذر نہیں ہے کیونکہ اس نے اس علم کے باوجود کہ یہ کام حرام ہے، ایک حرام فعل کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص زنا کرے اور اسے زنا کی حرمت کا علم ہو (اور ہر عاقل مسلمان یہ جانتا ہے کہ زنا حرام ہے) مگر اسے اس کی سزا کا علم نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ شادی شدہ ہو اور زنا کرلے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے تو پھر بھی اسے رجم کردیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رمضان کے مہینے میں دن کے وقت روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کرلے اور کہے کہ اس حالت میں مباشرت کے کفارے کا اسے علم نہیں تھا حالانکہ اس کا کفارہ مغلظ ہے اور وہ ہے ایک غلام کو آزاد کرنا، غلام موجود نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا اور اگر روزے رکھنے کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا تو کفارے کے بارے میں ناواقفیت سے اس کا وجوب ختم نہیں ہوتا۔ کفارہ ہر صورت میں واجب ہوگا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے جب نبی اکرمﷺ سے یہ پوچھا کہ اس نے لاعلمی سے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے مباشرت کرلی ہے تو اس پر کیا واجب ہے؟ تو نبیﷺ نے اسے یہ فتویٰ دیا کہ اس کے ذمے ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جائے۔ (۱) بہرحال جرم کی سزا کے علم نہ ہونے سے سزا ختم نہیں ہوتی، جب کہ یہ علم ہو کہ یہ کام حرام ہے۔
(۱) صحیح البخاري، الصوم، باب اذا جامع فی رمضان ولم یکن له شی فتصدق علیہ فلیکفر، حدیث: 1936و صحیح مسلم، الصیام، باب تغلیظ تحریم الجماع… الخ، حدیث: 1111
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب