سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) اجتہاد اور فتویٰ

  • 12670
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1261

سوال

(207) اجتہاد اور فتویٰ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اسلامی احکام کے سلسلے میں اجتہاد کا دروازہ ہر انسان کے لیے کھلا ہے یا مجتہد کے لیے کچھ شرائط ضروری ہیں؟ کیا انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ واضح دلیل معلوم کیے بغیر محض اپنی رائے سے فتویٰ دے؟ اس حدیث کی صحت و ضعف کے اعتبار سے کیا حیثیت ہے جس میں یہ ہے کہ «اَجْرَؤُکُمْ عَلَی الْفُتْیَا اَجْرَؤُکُمْ عَلَی النَّارِ » ’’ تم میں سے فتویٰ دینے کے لیے سب سے زیادہ دلیر وہ ہوگا جو جہنم جانے کے لیے زیادہ دلیر ہو؟‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احکام شرعیہ معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ اس شخص کے لیے کھلا رہے گا جو اس کا اہل ہوگا کہ جس مسئلہ میں وہ اجتہاد کرنا چاہتا ہو اس سے متعلق ضروری آیات و احادیث کا اسے علم ہو۔ جن احادیث سے وہ استدلال کر رہا ہو، صحت و ضعف کے اعتبار سے ان کے مقام و مرتبہ سے آگاہ ہو۔ جن مسائل میں وہ تحقیق کر رہا ہو، ان کے بارے میں اسے یہ علم ہو کہ کہاں کہاں اجماع ہے تاکہ کسی مسئلہ میں وہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہ کرے۔ عربی زبان سے اسے اس قدر واقفیت حاصل ہو کہ وہ نصوص کو سمجھ سکے تاکہ اس کے لیے استدلال و استنباط ممکن ہو۔ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دین میں کوئی بات اپنی رائے سے کہے یا علم کے بغیر لوگوں کو فتویٰ دے بلکہ اسے چاہیے کہ دلیل شرعی سے راہنمائی حاصل کرے اور پھر اہل علم کے اقوال اور دلائل کے بارے میں ان کے نظریات اور استنباط و استدلال کے سلسلہ میں ان کے طریقہ سے بھی استفادہ کرے اور پھر وہ بات کرے یا فتویٰ دے جس پر اسے اطمینان ہوگیا ہو اور جسے اس نے خود اپنے لیے بطور دین پسند کرلیا ہو۔

فتویٰ سے متعلق اوپر جس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا ہے، اسے عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی نے (( سنن الدارمی، المقدمہ، باب الفتیا ومافیہ من الشدۃ : 57/1، حدیث: 159)) میں عبید اللہ بن ابی جعفر مصری سے مرسل روایت کیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص158

محدث فتویٰ

تبصرے