سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(456) حج یا عمرہ میں کسی کو نائب بنانے کے متعلق حکم

  • 1266
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1349

سوال

(456) حج یا عمرہ میں کسی کو نائب بنانے کے متعلق حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج یا عمرے میں کسی کو نائب بنانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حج کے لیے کسی کو وکیل بنانے کی درج ذیل دو صورتیں ہو سکتی ہیں: (۱)فرض کے لیے وکیل بنایا گیا ہو۔ (۲)نفل کے لیے وکیل بنایا گیا ہو۔ فرض حج یا عمرے میں کسی کواپنا وکیل بنانا جائز نہیں ہے الایہ کہ خود بنفس نفیس بیت اللہ تک پہنچنا ممکن نہ ہو، خواہ اس کا سبب ایسا دائمی مرض ہو، جس کے ازالے کی امید نہ ہو یا اس کا سبب بڑھاپا وغیرہ ہو۔ اگر مرض کے زائل ہو جانے کی امید ہو تو اسے انتظار کرنا چاہیے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ عافیت عطا فرما دے اور وہ خود بنفسہ حج ادا کر سکے۔ اگر کوئی امر حج سے مانع نہ ہو اور انسان خود حج کر سکتا ہو تو اس صورت میں حج ادا کرنے کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرنا حلال نہیں ہے کیونکہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنا حج خود ادا کرے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا...﴿٩٧﴾... سورة آل عمران

’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھے وہ اس کا حج کرے۔‘‘

عبادات میں مقصود یہ ہے کہ انسان انہیں بذات خود ادا کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و انکساری کا اظہار کر سکے اور جو شخص کسی دوسرے کو وکیل مقرر کرتا ہے تو وہ اس عظیم مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا جس کے لیے عبادات کو مقرر کیا گیا ہے۔

جس موکل نے فرض حج و عمرہ ادا کر لیا ہو اور اب وہ حج یا عمرے کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائز۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ ایسا کرنا ناجائز ہے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حج یا عمرے کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے جبکہ حج و عمرہ نفل ہو کیونکہ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انسان انہیں خود ادا کرے جیسے کوئی انسان کسی کو اس لئے وکیل مقرر نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی طرف سے روزہ رکھے، البتہ اگر وہ فوت ہو جائے اور اس کے ذمے فرض روزے ہوں تو ان فرض روزوں کو اس کی طرف سے اس کا ولی رکھے گا۔ اسی طرح حج بھی ایک بدنی عبادت ہے جسے انسان کو بذات خود ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ محض مالی عبادت نہیں ہے کہ اس سے مقصود دوسرے کو نفع پہنچانا ہو۔ اگر کوئی بدنی عبادت ہو جسے آدمی اپنے بدن کے ذریعہ سر انجام دیتا ہو تو کسی دوسرے کی طرف سے وہ عبادت کرنا صحیح نہیں الایہ کہ جس کے بارے میں سنت سے ثابت ہو اور حج نفل کے بارے میں سنت سے یہ ثابت نہیں کہ اسے کسی دوسرے انسان کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ  سے ایک روایت یہی ہے کہ انسان کے لیے یہ صحیح نہیں کہ وہ نفل حج یا عمرے میں کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کرے، خواہ وہ خود قادر ہو یا نہ ہو۔ اس قول کو اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ دولت مند اور خود حج ادا کر سکنے والے لوگ اپنے حج خود ادا کریں گے۔ کئی لوگ صاحب استطاعت ہونے کے باوجود سالہا سال تک مکہ مکرمہ نہیں جاتے اور وہ ہر سال کسی کو اپنا وکیل بنا کر بھیج دیتے ہیں اس طرح وہ اس عظیم مقصد سے محروم رہتے ہیں جس کی خاطر اس فریضہ کو مقرر کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ410

محدث فتویٰ

تبصرے