سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) اس حدیث ’’ جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دیا وہ کافر ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟

  • 12652
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1992

سوال

(182) اس حدیث ’’ جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دیا وہ کافر ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ترکی میں کچھ مسلمان بھائیوں کا اس حدیث جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دیا تو وہ کافر ہے۔‘‘ کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا اس سے مراد کافر ہے یا گناہ گار، سوال یہ ہے کہ حدیث میں وارد لفظ کَفَرَ کے کیا معنی ہیں؟ کیا اس میں اور لفظ ’’ کافر‘‘ میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ اس حدیث کے بارے میں کافی و شافی جواب سے مطلع فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً: ہمارے علم کے مطابق یہ حدیث بے اصل ہے۔ قابل اعتبار ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی اسے صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ بیان نہیں کیا لہٰذا اس صورت میں اس حدیث کی طرف التفات ہی نہیں کیا جا سکتا۔

ثانیاً: اگر کوئی مسلمان کسی ایسے حکم کی مخالفت کرے، جو کتاب و سنت کی نص صریح سے ثابت ہو، جس میں تاویل یا اجتہاد کی گنجائش نہ ہو یا وہ کسی ایسے اجماع کی مخالفت کرے جو قطعی طور پر ثابت ہو تو اس کے لیے صحیح حکم کو بیان کیا جائے گا۔ اگر قبول کرے تو الحمد للہ اور اگر وہ صحیح حکم بیان کیے جانے اور حجت قائم کیے جانے کے بعد بھی انکار کرے اور حکم الٰہی کے بدل دینے پر اصرار کرے تو اسے کافر قرار دیتے ہوئے اس سے مرتد کا معاملہ کیا جائے گا۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص نماز پنجگانہ یا ان میں سے کسی ایک نماز یا روزہ، یا زکوٰۃ یا حج کا انکار کرے، ان نصوص کتاب و سنت کی تاویل کرے، جن سے ان احکام کی فرضیت ثابت ہے اور اجماع امت کی بھی پروا نہ کرے اور اگر وہ کسی ایسے حکم کی مخالفت کرے جو کسی ایسی دلیل سے ثابت ہو جس کے ثبوت میں اختلاف ہو یا اس میں مختلف معانی اور احکام کی تاویل کی گنجائش ہو تو اس کا یہ اختلاف ایک اجتہادی مسئلہ میں اختلاف ہوگا، جس کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ غلطی کرنے والے کو (جبکہ وہ مقلد نہ ہو) معذور سمجھا جائے گا اور اجتہاد کی وجہ سے وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا اور وہ شخص قابل تعریف ہوگا جس کا اجتہاد صحیح ہوگا نیز اجتہاد کی وجہ سے وہ دوگنا اجر وثواب کا مستحق ہوگا، ایک اجتہاد کا اجر اور دوسرا اجتہاد کے صحیح ہونے کا اجر۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے وجوب کا انکار کرے اور دوسرا اسے واجب قرار دے، یا جیسے کوئی شخص میت کے گھر والوں کے کھانے پکانے اور اس کے لیے لوگوں کے جمع کرنے کے بارے میں اختلاف کرے اور اسے مستحب یا مباح قرار دے یا یہ کہے کہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ہے، تو ایسے شخص کو نہ کافر قرار دینا جائز ہے، نہ یہ جائز ہے کہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے انکار کردیا جائے یا اس سے رشتہ جوڑنے سے انکار کردیا جائے اور نہ ایسے شخص کا ذبیحہ حرام ہے بلکہ واجب یہ ہے کہ اس کی ہمدردی و خیر خواہی کی جائے اور کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا جائے کیونکہ یہ ایک مسلمان بھائی ہے اور اسے مسلمانوں کے حقوق حاصل ہیں۔ اس مسئلہ میں اختلاف، ایک اجتہادی اور فرعی مسئلہ میں اختلاف ہے۔ اس قسم کے اختلاف کی مثالیں تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ سلف کے عہد سے بھی ملتی ہیں مگر انہوں نے اس قسم کے اختلاف کی وجہ سے نہ تو ایک دوسرے کو کافر قرار دیا اور نہ ایک دوسرے سے تعلقات ہی منقطع کیے تھے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص145

محدث فتویٰ

تبصرے