سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) گانا سننے کے بارے میں احادیث

  • 12628
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 21887

سوال

(154) گانا سننے کے بارے میں احادیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث پڑھی اور سنی ہے:

(من استمع الي قينه صب في اذنيه الانك))

’’جوشخص كسی گانے  والی کے گانے کو سنے تو قیامت  کے دن اس کے کانوں میں  پگھلا ہو سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اس طرح میں نے یہ حدیث بھی پڑھی اور سنی ہے:

(الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينب الماء العشب))

’’گانا دل میں اس طرح نفاق اگاتا ہے جس طرح پانی سے گھاس  اگتا ہے۔‘‘

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ ان مختلف قسم کے گانوں کے سننے کے بارے میں کیا حکم ہے، جو گھروں کی بجائے ایسی گاڑیوں یا محفلوں میں سنے جائیں، جہاں منع کرنا اس کے بس میں نہ ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آواز سننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اس کی طرف مائل ہو اور کان لگائے، تو گاننے سننے میں بھی مائل ہونے اور کان لگانے ہی کی صورت ہے۔ لیکن یہ سماع کبھی تو قصد و ارادے اور قلبی میلان کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کا نام استماع ہے اور اس کا حکم بھی استماع والا ہی ہے (یعنی یہ ناجائز اور حرام ہے) اور کبھی یہ سماع بغیر قصد و ارادے اور قلبی میلان کے ہوتا ہے تو اس کا نام استماع نہیں ہے اور نہ اس کا حکم ہی استماع والا ہے تو سائل نے یہ جو مختلف قسم کے گاننے سننے کے بارے میں پوچھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ گانا سننا حرام ہے، مرد کے لیے بھی اور عورت کے لیے بھی، گھر میں بھی اور گاڑیوں اور عام و خاص ہر قسم کی محفلوں میں بھی کیونکہ اس طرح آدمی اس چیز کو اختیار کرتا، مائل ہوتا، اور شرکت کرتا ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّـهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان

’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘

سائل نے گانے کا جو ذکر کیا ہے تو وہ یہی لہو الحدیث ہے۔ یہ دل کے لیے فتنہ ہے۔ دل کو شر کی طرف مائل کرتا اور خیر سے روکتا ہے۔ انسان کے وقت کو ضائع کرتا ہے لہٰذا یہ لہو الحدیث کے عموم میں داخل ہے اور گانا گانے والا اور گانا سننے والا دونوں ہی اس کے عموم میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے کو رسوا کن عذاب کی وعید سنائی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا گانا اور سننا حرام ہے، اس طرح سنت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

(لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ، يَأْتِيهِمْ ـ يَعْنِي الْفَقِيرَ ـ لِحَاجَةٍ فَيَقُولُوا ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا‏.‏ فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‏))

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری ، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔‘‘

معازف سے مراد گانا بجانا اور گانے بجانے کے آلات ہیں۔ گانا بجانا اور گانا سننا بھی اس میں سے ہے۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کی مذمت بیان فرمائی ہے جو زنا کو حلال سمجھتے ہیں، مرد ہو کر ریشم پہنتے ہیں، شراب پیتے ہیں، آلات موسیقی کا استعمال کرتے اور گانا سنتے ہیں۔ گانا سننے کو بھی آپ نے ان کبیرہ گناہوں کے ساتھ ذکر کیا جن کا اس سے پہلے ذکر ہوا اور اس پر بھی عذاب کی وہ وعید سنائی جس کا اس حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آلات موسیقی کو استعمال کرنا اور گانا سننا حرام ہے۔

قصد و ارادہ اور کان لگانے کے بغیر جو گانا سننا ہے، مثلاً راستہ میں چلتے ہوئے دو کانوں یا گاڑیوں سے آنے والی آواز کانوں میں پڑ جائے یا مثلاً یہ کہ آدمی اپنے گھر میں ہو مگر پڑوسیوں کے گھر سے آنے والی گانوں کی آواز کانوں میں پڑ جائے اور آدمی کو اس کا قطعاً کوئی شوق نہ ہو تو اس صورت میں آدمی معذور ہے، لیکن اسے چاہیے کہ ان صورتوں میں نصیحت کرتا رہے اور حکمت و موعظت حسنہ کے ساتھ اس منکر کام سے منع کرتا رہے اور مقدور بھر کوشش کرکے کانوں میں پڑنے والی اس آواز سے بھی خلاصی حاصل کرے، لیکن بہرحال اس طرح کانوں میں پڑ جانے والی آواز کی وجہ سے اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔

علماء کی ایک جماعت کا یہ طریقہ بھی رہا ہے کہ اپنے مطلوب کے بارے میں پہلے وہ صحیح دلائل بیان کردیتے ہیں اور پھر کچھ ایسی احادیث بھی بیان کردیتے ہیں جن کی سند یا دعویٰ پر دلالت میں کچھ ضعف ہوتا ہے تو یہ بات اصل مطلوب کے ثبوت میں نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ان ضعیف روایات کو انہوں نے بطور استدلال نہیں بلکہ صرف استشہاد کے طور پر بیان کیا ہوتا ہے، مثلاً گانے کی حرمت کے صحیح دلائل کے ساتھ وہ یہ روایت بھی بیان کردیتے جسے حکیم ترمذی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى صَوْتِ غِنَاءٍ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ أَنْ يَسْمَعَ الرُّوحَانِيِّينَ)(کنزالعمال حدیث:40660‘40666وتفسیر قرطبی:45۔53/14)

’’جس نے  گانے کی آواز کو سنا تو اسے جنت میں روحانیوں کی آواز سننے کی اجازت نہ ہوگی۔‘‘

اس طرح ابن عساکر نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے روایت کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

(من استمع قينة صب في أذنيه الآنك يوم القيامة)(ضعیف الجامع الصغیر للالبانی حدیث:4510والضعیفه حديث:4549)

’’ جس نے کسی مغنیہ کی آواز سنا تو روز قیامت  اس کے دونوں کانوں میں سیسہ ڈالا جائےگا۔‘‘

ابن ابی الدنیا نے ’’ ذم الملاھی‘‘ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:

(الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ , كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقْلَ)(السنن الكبري للبيهقي :223/10وابنى ابي الدنيا في ذم الملاهي ص :73وسنن ابي داود الادب باب

نیز امام بیہقی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اکرمﷺکی یہ حدیث روایت کی ہے:

(الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ، كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ( (شعب الايمان حديث:5100)

’’گانا  دل میں اس طرح نفاق کو اگاتا ہے جس طرح پانی سے کھیتے پروان چڑھتی ہے۔‘‘

یہ تمام احادیث اگرچہ ضعیف ہیں مگر یہ گانا بجانے اور سننے کی حرمت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہیں کیونکہ اس کی حرمت کتاب و سنت کے دوسرے صحیح دلائل سے ثابت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص131

محدث فتویٰ

تبصرے